عام طور سے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں جب کوئی سیاسی پارٹی ایک بار اقتدار سنبھالتی ہے تو تاریخی طور پر اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ دوسری بار بھی وہ میدان مار لیتی ہے۔ مگر انتخابات سے چند ماہ قبل امریکا کی صورتحال ایسی تھی کہ لگتا تھا کہ ٹرمپ سرکار کو انتخابات کا پرامن ماحول دستیاب ہو گا بھی یا نہیں۔
وائٹ ہاؤس پر حملے، شہروں میں توڑ پھوڑ، سیاہ فام اور سفید فام بعض جگہوں پر ایک دوسرے کے مدمقابل، شہر شہر مجسموں کی توڑ پھوڑ، بے قابو ہجوم کوچہ بہ کوچہ لہراتا پھرتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ امن کی بحالی لوٹ مار کی نذر ہو جائے گی۔
تقریباً دو ماہ سے زائد بدنظمی کے یہ حالات چلتے رہے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ پرسکون حالات نظر آنے لگے۔ اسی اثنا میں امریکا کی اسٹیبلشمنٹ نے کچھ غیر رسمی فیصلے کیے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ملک میں پیدا مار دھاڑ پر قابو پانے کا کوئی فارمولا پیش نہ کیا اور نہ ہی عوام سے خواہ وہ سفید فام ہو یا سیاہ فام ان کو منظم اور متحد کرنے کا کوئی ایسا فارمولا پیش کیا جس سے وہ آن واحد میں منظم ہو جاتا ہے۔
بلکہ تخریب کار تخریب کرتے کرتے تھک چکے تو پھر امن کی باتیں نکالی گئیں اور بالآخر جب بڑے بڑے شہروں میں مجسمے گرا دیے گئے تو پھر حملہ آوروں کو لوٹ مار کے بعد کوئی نیا بڑا منصوبہ ہاتھ نہ آیا۔ کیونکہ امریکی قوم میں تعلیم اور شعور بلند درجے پر موجود تھا۔ اس لیے اس ارتعاش کے بعد اس ملک میں سکون تو آنا ہی تھا۔ ایسی حالات میں ٹرمپ کی دوبارہ آمد پرا سٹیبلشمنٹ نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ کیونکہ جوبائیڈن کی انتخابی تقریر اتنی پرعزم دکھائی دیتی تھی۔ جیسے کہ وہ کل الیکٹورل کالج کا قلم دان لے کر بیٹھے ہیں۔
اور دوسری جانب ٹرمپ انتظامی ڈھانچے اور انتخابی اداروں کا اور قانون اور عدلیہ کا سہارا لیتے ہوئے گفتگو کرتے رہے۔ بلکہ بعض غیر ملکی میڈیا نے دونوں مدمقابل رہنماؤں کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا جیساکہ یہ کوئی امریکی انتخابات نہیں بلکہ نئے فسادات کی ابتدا ہے۔ گویا انتخابات کے بعد تصادم کا امکان ہے۔ ملک میں گڑبڑ دراصل سیاہ فام ورکر کی مقامی پولیس کے ہاتھوں موت اور اس موت پر ٹرمپ نے اپنی آواز میں جس طرح نقل اتاری جس سے سیاہ فام طبقہ آگ بگولہ ہو کر ملک میں تصادم کی فضا پیدا کر رہا تھا۔
اس موقع پر ڈیموکریٹک پارٹی نے مظاہروں میں سیاہ فام کا ساتھ دے کر ملک کی نسلی تقسیم کی تحریک کا رخ موڑ دیا جس سے ٹرمپ کو آنے والے وقتوں میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ ورنہ امریکا میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر امیدوار کم ازکم دوبارہ صدر منتخب ہوتا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے جس طرح کا غیر سنجیدہ انداز اپنایا اسی وجہ سے انتخابی نتائج تقریباً کانٹے کا سماں پیش کر رہے تھے۔ اور بالآخر دو فیصد کے فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا انھیں ادراک نہ تھا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ دوسری بار بھی انھیں صدارت کی کرسی نصیب ہو گی۔
؎وہ دوسری مرتبہ بھی اپنی شکست کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے۔ اور ایسا لگتا تھا کہ انیسویں صدی کی ابتدا میں جان ایڈم اور تھامس جیفرسن کا نقشہ پھر دوبارہ نظر آنے کو ہے۔ جہاں ایڈم کو زبردستی وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ واضح رہے کہ تھامس جیفرسن امریکی صدور میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ کیونکہ انھوں نے امریکی دستور میں نمایاں تبدیلیاں ایسی پیدا کیں تا کہ ملک میں نسلی اور مذہبی فسادات رونما نہ ہوں اور ملک روایتی طریقے سے اپنی منزلیں طے کرتا رہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسٹر ٹرمپ کی شکست گو کہ کم ووٹوں سے ہوئی مگر بھارت کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ کیونکہ بھارت کو ایسے امریکی صدر سے واسطہ تھا جو بنیادی طور پر شوبز کے اور کاروباری آدمی تھے۔ اس لیے ان کو سیاسی تاریخوں کا علم کم تھا اور وہ اپنی کم علمی کی بنا پر امریکا کو چین اور بھارت کی پراکسی وار میں ڈال دینا چاہتے تھے۔ جس سے امریکا کو چین کے ساتھ میدان جنگ کا سامنا کرنا پڑتا۔ اور وہ براہ راست چین کے ساتھ جنگ کا متحمل نہ ہو سکتا تھا۔
اس لیے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کی دوبارہ آمد پر خوش نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی ہوئی ہو بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ہلکی پھلکی جانبداری ایک یا دو فیصد کا وزن اٹھا سکتی ہے۔ کیونکہ مسٹر ٹرمپ نے ابھی حالیہ بھارت اور چین کی سرحدی جھڑپوں پر کھلے عام یہ الفاظ کہے کہ وہ بھارت کی جمہوری رسم سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اس جنگ میں بھارت کے حصہ دار بننا چاہتے تھے۔ جس سے عالمی پیمانے پر امریکا کو شدید نقصانات کا خدشہ تھا اور امریکا چین سے براہ راست تصادم نہیں چاہتا تھا۔
مسٹر ٹرمپ نے جاتے وقت آنے والے وقت کی خارجہ پالیسی کا اعلان کر دیا تھا جو کسی بھی دانشمند سیاسی مدبر کا کام نہ تھا۔ اس نے بھی امریکا میں باشعور امریکی ووٹوں کو ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف موڑ دیا ہو گا۔ کیونکہ امریکا فی الحال چین کے ساتھ کسی طویل پراکسی وار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب کہ مسٹر ٹرمپ چین کے ساتھ امریکا کا طویل تصادم کرنے سے بھی گریزاں نہ تھے۔
یہ ایک اچھی بات تھی کہ ٹرمپ نے اپنے دور میں کوئی نئی جنگ شروع نہ کی۔ لیکن وہ دوبارہ آمد پر چین سے پراکسی وار شروع کر سکتے تھے۔ البتہ آنے والے دور میں جنوبی امریکا کی ریاستوں خصوصاً وینزویلا کے ساتھ بڑی جنگ اور چین کے ساتھ پراکسی وار بھی کوئی خطرناک رخ اختیار کر سکتی تھی۔ جو امریکا کی جنگی حکمت عملی کے تناظر میں درست نہ ہوتا۔ گویا مسٹر ٹرمپ خود اپنی دوبارہ آمد کے راستوں پر مسلسل قدغن لگا رہے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں اس وقت جو وزیر اعظم ہے وہ نسل پرست اور فرقہ پرست ہے۔ فارن پالیسی پر کم علمی نے بھی ٹرمپ کو شدید نقصان پہنچایا۔ کیونکہ ماضی میں یہ ان کا شعبہ نہ تھا اور بعد میں ان کو نیا ڈکٹیشن دینے کے لیے انتظامیہ میں سے کوئی تیار نہ تھا۔ روس کے ساتھ امریکی ادوار میں کوئی نشیب و فراز نہ آئے۔ اس پر بھی امریکی انتظامیہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ رویہ پسند نہ آیا۔ کیونکہ وہ ترکی اور شام کے محاذ پر روس سے ایک قسم کی سیاسی شکست کھا بیٹھے تھے۔
البتہ مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے لیے عربوں کا مثبت ردعمل ٹرمپ کے کارناموں میں یہ کارنامہ نہایت بلند درجے کا حامل ہے۔ کیونکہ عرب دنیا میں اب اسرائیل کے خلاف کوئی حکومت صف آرا نہیں۔ صرف یہ فلسطینی نوجوان ہیں جو اپنے حقوق کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہیں۔
اسرائیل کی عرب دنیا میں آمد ٹرمپ کے کارناموں میں کارنامہ بھلایا نہ جائے گا۔ لہٰذا خارجہ پالیسی کے ایوان میں ٹرمپ کی اسرائیلی فتح امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک نمایاں کام قرار پائے گا۔ مسٹر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جو امریکی معاہدہ ہوا تھا اس کو روک کر نام تو کمایا مگر اس کو ختم کر کے امریکا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ بلکہ ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دیا۔
جو ایک لحاظ سے اسرائیل کے لیے تباہ کن ہے۔ اور لبنان میں ایرانی اثرات کا بڑھ جانا خود اسرائیل کے لیے کوئی مثبت پہلو نہیں۔ اس لحاظ سے مجموعی طور پر امریکا کی خارجہ پالیسی میں چھوٹے ملکوں پر تو دباؤ پڑا مگر بڑے ممالک آزاد رہے چنانچہ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ میں کم تر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور صدر پیوٹن کو بلند مقام حاصل ہے۔ اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ دوبارہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ صدر ٹرمپ اپنا دوسرا دور صدارت پورا کریں۔
اسی لیے اس خدشے سے صدر ٹرمپ کو قانونی ایوانوں کو الرٹ کرنے کی سوجھی اور اس بات کا بڑا امکان ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیں یا قانونی نکتہ دانیوں کا بڑے پیمانے پر شور شرابا کریں۔ چونکہ صدر ٹرمپ سیاسی پلیٹ فارم سے صدارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوئے تھے لہٰذا تمام غیر سیاسی طریقوں نے ان کی حرکات کی بنا پر ان کی سیاست کو روند ڈالا۔
ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ جب امریکی پولیس مین نے سیاہ فام کو مارا تو اس کی صدر ٹرمپ نے جس طرح نقل اتاری وہ نہایت غیر سیاسی عمل تھا جس سے امریکی قوم دو حصوں میں بٹ جاتی لہٰذا مخالف پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے لوگوں نے غیر اعلانیہ طور پر تحریک چلا ڈالی تاکہ امریکی قوم تقسیم نہ ہو۔
جس سے امریکی قوم تقسیم ہونے سے بچ گئی اور ڈیموکریٹک کو برائے نام ووٹوں سے فتح بھی حاصل ہوئی۔ امریکا میں یہ تحریک ایک منزل تک چلی اور اس کے بعد جا کر ختم ہو گئی کیونکہ ڈیموکریٹ نے پس پردہ ہاتھ ہٹا لیا۔ یہ کام ڈیموکریٹ نے ایسا ہی کیا جو تھامس جیفرسن نے انیسویں صدی کے اوائل میں کیا تھا اور ملک کو رنگ، نسل اور مذہب کے بندھن سے آزاد کر دیا تھا۔ بصورت دیگر اگر سفید فام موجودہ دور میں سیاہ فام عوام کا ساتھ نہ دیتے تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا جب کہ چھوٹی موٹی بدامنی تو شروع ہی ہو چکی تھی۔
ڈیموکریٹ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ایسا قدم اٹھایا جسے ہم تخریبی تعمیر کہہ سکتے ہیں۔ اگر ڈیموکریٹ مظاہروں میں شریک نہ ہوتے تو امریکی قوم میں یگانگت پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا یہ تعمیری عمل ڈیموکریٹ کے لیے فتح کا نشان بن کر سامنے آیا جب کہ اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو کوئی سیاستدان ایسا نہیں جو تحریک چلا رہا ہو۔ بغیر نام کے تحریک میں شامل ہو جائے توڑ پھوڑ سے لے کر لوٹ مار تک ہونے کے باوجود تحریک کو منفی عمل سے مثبت تحریک کی طرف لے جائے۔ ہمارے یہاں کوئی سیاستدان ایسا نہیں جو تخریب سے تعمیر کا کام لے لے۔ ہمارے یہاں اتنے انتخابی جلسے ہوئے مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ملک کو اقتصادی ترقی کیسے دے گا۔ اناج کے نرخ کیسے کم کرے گا۔
بس یہ معلوم ہوا کہ کم پڑھی لکھی کابینہ جسے سیاسی راستوں کا علم نہ ہو ملک کو عروج کی پگڈنڈی پر نہیں ڈال سکتی اور محض غیر ملکوں سے امداد کی بنیاد پر معیشت کو چلاتی رہے گی۔