حال ہی میں ایک بھارتی ڈپلومیٹ پروفیسر پنچوک کی ایک طنزیہ تحریر پڑھی جسے اس نے بھارتی افسر شاہی کی بائبل کا نام دیا تھا۔
فہرست غضب کی تھی، پڑھی تو کچھ افراط و تفریط کا سوچا کہ افسر شاہی کے ضوابط کی یہ فہرست برصغیر پاک و ہند کی بابوکریسی یعنی افسران بالا کے لیے کارآمد ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ تن من دھن سے ان ضوابط پر عمل پیرا ہونے والے بابو اوج کمال تک پہنچتے رہے ہیں۔
حالیہ اور گزشتہ تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے ستر سال میں ان ضوابط سے سر مو انحراف نہیں کیا گیا۔ ان ضوابط کی پائیداری ہی ان کے تیر بہدف ہونے کی دلیل ہے۔ یہ قوانین و ضوابط زمین کی گردش اور کشش ثقل کے قوانین کی طرح اٹل ہیں۔ یہ ضابطے کچھ اس طرح کے ہیں:
ضابطہ نمبر1۔ صرف ردعمل دو، کسی کام کا آغاز کرنے یا پہل قدمی کی ضرورت نہیں۔ آہستہ خرامی ہزار نعمت ہے۔
ضابطہ نمبر2۔ اتھل پتھل مت مچاؤ۔ بس دریا کے رخ پر موجوں کے ساتھ بہنا سیکھو۔ سہولتیں پیدا کرنے سے احتراز کرو، تمہیں نوکری اس کام کے لیے نہیں دی گئی۔ تمہاری ساری طاقت مکھی پر مکھی مارنے اور "قانونی" کے طور پر مشہور ہونے سے وابستہ ہے۔
ضابطہ نمبر3۔ اپنی ترجیحات اور عزائم پر پردہ ڈال کے رکھو، تمہارے سائے کو بھی اس کی خبر نہیں ہونی چاہیے۔ پانی کی طرح کسی بھی بوتل میں سما جاو۔
ضابطہ نمبر4۔ کاغذی کارروائی دنیا میں سب سے اہم چیز ہے۔ ہر صورت میں قانونی کتاب میں لکھا طریقہ کار نافذ رہنا چاہیے۔ صرف کتاب سے نتھی ہونے کی صورت میں ہی تم کچھ کیے بغیر عیش و آرام سے رہ سکو گے اور کام کاج سے بچے رہو گے۔ عموماً قانون کے تقاضے پورے ہونے تک تم وہاں سے تبدیل ہو چکے ہوگے اور کار سرکار یونہی چلتا رہے گا۔
ضابطہ نمبر5۔ اپنے آپ کو کسی بھی چیز سے جوڑنے اور وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرانے دوستوں، تعلق داروں سے پرہیز لازمی ہے۔ کوئی بہت بھی یاد دلائے تو اسے یاد کرنے سے گریز کرو اور یہی کہو کہ لگتا ہے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔
ضابطہ نمبر6۔ کسی بھی شک وشبہ کی صورت میں، فائل کو اوڑھ کر سوجاؤ اور جب تک ممکن ہو کام کو طول دیتے رہو۔ پورے صدق دل کے ساتھ کچھ بھی مت کرو۔
ضابطہ نمبر7۔ پیش قدمی پر کوئی انعام نہیں ملتا۔ جب کوئی مسئلہ ہوگا تو تمہیں سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ سیاستدان ہر چار پانچ سال میں ادل بدل جاتے ہیں، جب کہ تمہاری نوکری 40-35 سال تک چلے گی۔
ضابطہ نمبر8۔ قوانین اور ضابطوں کی چلتی پھرتی تصویر بن جاؤ، بس زور اس پر کہہ دو کہ کون سا کام کیوں نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں ہر گناہ، ثواب، حرکت اور عمل کا کوئی نہ کوئی ایسا جواز ڈھونڈ لو جس سے انکار کیا جا سکے۔ بس طاقت کے مرکز سے قریب ترین اور مؤثر ترین تعیناتی پر نظر رکھو، اور وہاں براجمان رہو۔
ضابطہ نمبر9۔ مسکین نظر آؤ، مگر روپیہ اور زر و جواہر جمع کرتے رہو۔ طاقت کی سیڑھی میں سب سے اوپر بیٹھے یا خاکی و آبی ترقی کے زینے چڑھتے کے ساتھ خاص طور بنا کر رکھو کہ زوورآوروں پر کیا گیا احسان کبھی ضایع نہیں جاتا۔ ضابطہ نمبر10۔ کسی بھی قسم کے تنازعات سے بچ کر رہو، کوئی ایسی صورت بنتی نظر آئے تو فوراً دائیں، بائیں ہو جاؤ۔ الجھن زیادہ بڑھ جائے تو کسی نہ کسی ماتحت کے سر منڈھ دو۔ قربانی کے بکرے بازار سے بارعایت دستیاب ہیں۔
ضابطہ نمبر11۔ مون سون کی بارشوں کی وجہ سے اپنی طبیعت مت خراب کرو۔ یاد رکھو کہ آج سے پچاس برس قبل بھی عام عوام بارشوں میں اسی طرح اپنی جان ومال سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اپنے ملک میں حالات ہمیشہ اسی طرح کے ہی رہیں گے۔ اپنی نوکری پر دھیان دو اور خواہ مخواہ قوانین فطرت سے الجھنے سے گریز کرو۔
ضابطہ نمبر12۔ عام عوام کے مسائل میں زیادہ الجھنے سے گریز کرو۔ یہ کروڑوں ہما شما صدیوں سے ایسے ہی جیتے یا مرتے آ رہے ہیں اور رہیں گے۔ تم بچ بچا کے پتلی گلی سے نکل چلو۔
ضابطہ نمبر13۔ اپنے اوپر خصوصی توجہ دو۔ خاص طور پر دھیان دو کوئی پیٹھ پیچھے وار نہ کرسکے۔
ضابطہ نمبر14۔ خاص طور پر دیانتدار، محب وطن اور محنتی لوگوں سے خبردار رہو، یہ نہ صرف خود مریں گے بلکہ تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔
ضابطہ نمبر15۔ دنیا میں کسی آفاقی سچ، گناہ یا ثواب کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہر چیز کے کئی زاویے، کئی سمتیں اور کئی دلیلیں ہیں، بس اپنے بچاؤ کے لیے کوئی بھی دلیل استعمال کرو جو موقع پر کام آئے اور جو جیت جائے اس کے ساتھ مصروف کار ہو جاو۔
ضابطہ نمبر16۔ بابو نوکری سے کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔ اپنے آخری برسوں میں دیکھ کر رکھو کہ کنٹریکٹ پر کہاں تعیناتی ممکن ہے اور نوکری کو الوداع کہتے وقت اگلی نوکری کا پروانہ جیب میں رکھو۔
ضابطہ نمبر17۔ کبھی بھی نظریاتی اور مذہب پرستی میں مت مبتلا ہونا۔ ضرورت پڑنے پر نظریاتی یا مذہبی نظر آنے میں کوئی حرج نہیں، مگر یاد رکھو کہ بابو کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ بس زورآوروں اور زرداروں کے ساتھ مخلص رہو، بھلے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔
ضابطہ نمبر18۔ کسی قسم کی نوکری بانٹتے وقت اپنے کیڈر اور اپنے برہمن گروپ کے سوا کسی بھی لائق، فائق اور میرٹ پر پورے اترتے شخص کی تعیناتی مت کرو۔ یاد رکھو کہ نوکری ہر اس شخص کا حق ہے جو کل تمہارے کام آئے اور جان اور مال سے وفاداری کا اظہار کر سکے۔
ضابطہ نمبر19۔ ہر ایسے شخص کو دھوبی پٹڑا مار کے گراؤ اور رگید کر گزر جاؤ جو تمہارے لیے خطرہ بن سکتا ہو اور اس ضمن میں بے رحمی سے کام لو ورنہ بھگتو گے۔
ضابطہ نمبر20۔ طبعاً نظریاتی، جوشیلے اور کچھ کر دکھانے کی تمنا رکھنے والے لوگوں سے میلوں دور رہو اور انھیں اچھوت جان کر پرہیز کرو کیونکہ یہ لوگ تمہارے وجود کے لیے سم قاتل ہیں۔
ضابطہ نمبر21۔ یہ ضابطہ اضافی طور پر شامل کیا گیا ہے۔ تمام بابوؤں کے لیے لازمی ہے کہ وہ بدیشی زبان کو ترجیح دیں اور عوامی زبان میں لکھنے، پڑھنے اور کلام کرنے سے گریز کریں۔ اگر کہیں کسی اجلاس میں عوام کی سننی پڑے تو سنی ان سنی کر دیں اور جابجا غیر ملکی مصنفین کے اقوال کا حوالہ دیں اور اپنے علم کی دھاک بٹھا دیں۔
پس نوشت:پروفیسر پنچوک کے مرتب کردہ یہ ضابطے، فدوی کے کچھ اضافوں کے ساتھ پیش خدمت ہیں اور ہندوستان اور پاکستان، دونوں کی افسر شاہی کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ یہ بابوآنہ اقدار اگلے کئی عشروں تک بھی سلامت رہیں گی۔
جو قارئین ابھی تک نہیں سمجھ پائے ان کے لیے عرض ہے کہ یہ ان لکھے قوانین سینہ بہ سینہ، منہ زبانی چلتے ہیں اور اس سلسلے میں کم لکھے کو ہی کافی سمجھا جائے کہ فدوی بذات خود ایک بابو رہا ہے، بابوؤں میں ہی زندگی گزارتا، اٹھتا بیٹھتا اور پھلتا پھولتا ہے اور مزید بابو ہونے کی تمنا رکھتا ہے۔ اظہار برات کے لیے لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔