انہی دنوں میں جب ہندوستان دنیا کی ڈارلنگ بن رہا تھا، پاکستان دنیا بھر کے لیے درد شقیقہ بن کر سامنے آگیا تھا۔ روس ٹوٹ چکا تھا، پاکستانی خزانے خالی تھے، ایک بے روح عشرہ مسلط تھا۔ سٹیرنگ پر خاکی بیٹھے ہوئے تھے۔ پاکستان میں وہ سب کچھ برا تھا، جو ہندوستان میں اچھا تھا، نہ جمہوریت، نہ سیکولرازم، نہ ناف والا ڈانس، بلکہ شدت پسندی، اور شدت پسندی کی ایکسپورٹ۔ انہی دنوں میں اس بیانیے نے جنم لیا جس میں پاکستان کو جنوبی ایشیائی خطے سے 'رائٹ آف' کردیا گیا۔ پاکستان اب محلے کا بگڑا ہوا اور آوارہ بچا تھا، جو اباجی کی جیب سے پیسے نکال کر بھاگ جاتا تھا اور اسے صرف ڈانگ سوٹے کے زور پر سیدھا کیا جا سکتا تھا۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی تو ٹون ٹاور گرے تو امریکا میں، مگر ان کے ٹکڑے پاکستان میں ملبہ کرگئے۔ امریکا بہادر افغانستان آکر بیٹھا تو اس نے نئی دہلی کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنی شروع کردیں۔ معلوم ہوا آزاد دنیا کی تہزیب کو قرون وسطیٰ کے دہشت گردوں سے بچانے کے لیے سیکولر ہندوستان کی ضرورت ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر میں ایک کافی اونچی اور رنگیلی پیڑھی ہندوستان کے لیے خالی کردی گئی۔ امریکی صدور صدقے واری ہونے لگے۔ خصوص نیوکلیئر ڈیل کی پیش کش کردی گئی۔ اور تو اور، چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو دبانے کے لیے ساؤتھ چائنا سمندر میں بھی بھارتی بلیو واٹر نیوی کو بڑھاوا دینے کے لیے، ایشیا پیسفک کی بجائے امریکی انڈوپیسیفک کے لفظ استعمال کرنے لگے۔ صاف ظاہر تھا، ہندوستان اب علاقے کا چوہدری تھا، اور بالی ووڈ نے چمتکار کے زریعے دنیا بھر کو چوہدری کے درشن کرانے شروع کر دیے۔
بالی ووڈ نے ایک نئے ہندوستان کو پردہ سکرین پر جنم دیا۔ اس ہندوستان میں ان چالیس کروڑ لوگوں کا زکر نہیں تھا جنہیں ٹوائلٹ بھی میسر نہیں تھا، نہ ہی دنیا کے ریپ کیپیٹل دہلی پر بات کی جاتی۔ نہ ہی آر ایس ایس اور بھارتی جنتا پارٹی کا عفریت ان کی نظر میں آیا جو انڈیا کی روحانی، سیکولر اور جمہوری قدریں چٹ کر گیا۔ فلموں میں ڈان تھے، اپنے دیسی جیمز بانڈ تھے جو گورے کے بھی پر کترتے تھے۔ سنی دیول، اجے دیوگن اور سیف علی خان جیسے ہیرو تھے، جو ہر دوسری فلم میں کہتے تھے، 'اندر گھس کے ماریں گے، یہ وہ والا ہندوستان نہیں ہے'۔ پھر وہی ہوا، جو ہوتا یے۔ کہانی کہنے والوں، کرنے والوں اور دیکھنے والوں کو واقعی یقین ہوگیا کہ پردہ سکرین ہی سچ ہے۔ ہند اور اس کے شکتی شالی سینک ناقابل تسخیر ٹھہرے۔ رہا پاکستان تو وہ کس باغ کی مولی تھا، اس کی گچی کسی وقت بھی مروڑی جاسکتی تھی۔
پلوامہ میں خودکش حملہ کیا ہوا، بھارتی ٹی وی سکرینیں تیزاب سے نہا گئیں۔ آخر اس ٹٹو ٹٹیرے پاکستان کو ہم توڑ کیوں نہیں دیتے؟ کئی اینکر ہزیانی انداز سے پوچھ رہے تھے۔ اڑی میں حملے کے بعد سرجیکل سٹرائیک کی فلم سامنے آچکی تھی جس کا راوی صرف بالی ووڈ تھا۔ پلوامہ کے حملے کے بعد، اپنی احساس برتری کے گھوڑے پر سوار بھارتی نیم پاگل ہوگئے۔ اب وہ علاقے کے چوہدری تھے، دنیا کے سب سے تیز رفتار جہازوں پر وہ جہاں چاہیں، گھس سکتے تھے اور خاک و خون کا طوفان اٹھا سکتے تھے۔ بالاکوٹ پر پے لوڈ گرانا اور 300 دہشت گردوں کو نیست ونابود کرنا اس بالی ووڈ فینٹسی کا نقطہ عروج تھا۔ بھارتی، بھنگڑے ڈال رہا تھے اور اپنے آپ کو شیشے میں دیکھ دیکھ کر اترا رہے تھے۔ آخر کار وہ کتنی دیر پاکستان کی بدمعاشی پر صبر کرسکتے تھے۔
بالی ووڈ کی پلوامہ سٹرائیکس والی فلم 27 فروری کو لگی اور بدقسمتی سے 28 فروری کو اتر گئی۔ معلوم ہوا نسبتاً ہلکے اور سستے پاکستانی ایف سیون نے سونے میں تولے جانے والے ایس یو تھرٹی اور مگ 21 کو مار گرایا ہے۔ پائلٹ ابھینندن بہ صرف گرفتار ہوا بلکہ ایک کھرے فوجی کی طرح پاکستانی فوج کے پروفشنل پن کا معترف بھی نظر آیا۔ اس نے فینٹاسٹک چائے بھی پی اور بھارتی میڈیا کے لتے بھی لیے۔
بھارتی جنرل اور ائیر مارشل ہکلاتے ہوئے بریفنگ دینے آئے اور نو کمنٹس کہ کر چلتے بنے۔ پھر معلوم ہوا کہ بالاکوٹ میں تو کوئی ہلاکتیں نہیں ہوئیں، بس ایک کوا مرا کہ مقصد پاکستان کو تنبیہ کرنا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کے زریعے مزید پتہ چلا کہ امریکی اپنا سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ بھارتی جنگی مشین کچرا بن چکی ہے، اسلحہ فرسودہ ہے، سپاہیوں میں حوصلہ دم توڑ چکا ہے اور اب وہ سٹیٹ سیکرٹ 28 فروری کو پوری دنیا کے سامنے اوپن ہوچکا ہے۔
جنگ ایک ایسا تھپڑ ہوتا ہے، جس کی اصل قوت اس کو نہ مارنے میں ہے۔ حالیہ مناقشے میں بھارت نے اپنی کافی ساری چوہدراہٹ، رعب، دبدبہ اور وقار کھو دیا ہے۔ 1971 کے تقریباً پچاس برس بعد، پاکستانی ضمیر نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور اس باراس پر شکست کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ، پاکستانی چہروں پر اطمینان ہے کہ اب صفوں میں کوئی جنرل نیازی موجود نہیں ہے، اور سرنڈر کا لفظ ہماری ڈکشنری سے خارج ہوچکا ہے۔ آج پاکستانی جانتے ہیں کہ بھلے بالی ووڈ کو بارہ مسالے والی فلمیں بنانی تو آتی ہیں، مگر اصل میں جہازوں کا بھرتہ وہ بہتر بناتے ہیں۔ اصل جنگ تو اب شاید کبھی نہ ہو، مگر جہازوں کی مختصر سی کتا بھیڑی میں، 1971 کے سرنڈر کی نفسیاتی موت واقع ہو چکی ہے۔ اب نفسیاتی طور پر پاکستان میں ایک نئی نسل نے آنکھیں کھول دی ہیں، جس کے سینے پر کسی سرنڈر کا داغ نہیں ہے۔