آج کے دن گزشتہ برس جب بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن، اپنا مگ 21 اڑوانے کے بعد، کمر پر بندھے ہاتھوں سمیت پاکستانی فوجیوں کے نرغے میں سر جھکائے چلا جا رہا تھا تو اس وقت اس کی صرف ناک ہی خون آلودہ نہیں تھی، بلکہ ایشیائی سیاست میں ہندوستان کے امیج اور نفسیاتی برتری کی پتلی کمر بھی ٹوٹ چکی تھی۔
ہندوستان، بحیثیت ملک دنیا کے سٹیج پر مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔ مغل دور میں سونے کی چڑیا کے نام سے معروف ہوا، جسے ہر ایرا غیرا اپنے پنجرے میں ڈالنا چاہتا تھا۔ مورخین اس زمانے میں دنیا بھر کی جی ڈی پی کا بیس فیصد کھرا ہندوستان میں ڈھونڈتے تھے۔ پھر، ہندوستان غلام بنا، اور بیسویں صدی کے وسط میں وسط میں آزاد ہوا تو دنیا میں کچھ خاص نوٹس نہ لیا گیا۔ تب ہندوستان جہالت، قحط اور پسماندگی کی سرزمین سمجھا جاتا تھا۔
جواہر لال نہرو کی قیادت میں ایک ایسے ملک نے جنم لیا جو غیر وابستہ تحریک کا حصہ تھا، اپنا اناج اگانے، اپنی ٹوٹی پھوٹی ماروتی چلانے اور باہر دنیا سے قدرے کٹا ہوا ہندوستان جو 1960 کے عشرے میں بھنگ کی فراوانی اور اپنے ننگ دھڑنگ بابوں اور گرؤوں کی وجہ سے معروف ہوا۔ 1960 اور 1970 کے عشروں میں سیاح جب ہندوستان سے پاکستان پہنچتے تو انہیں دکھتا کہ اچانک قد لمبے ہوگئے اور جسم بھر گئے ہیں، بھارت کے مقابلے میں لاہور اور کراچی میں پاکستانیوں کے چہرے تمتما تے تھے اور ان کے بازاروں میں دلی اور ممبئی کے مقابلے میں خوب چہل پہل تھی۔
آزادی کے دو تین عشرے بعد ہندوستان کی وجہ افتخار دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور غریبوں کا ملک ہونا تھا جہاں پر ترقی کی شرح بہت ابتدائی ہندسوں میں رینگتی تھی۔ ان دنوں میں جمہوریت سے محروم پاکستان کا موازنہ کیلیفورنیا سے کیا جاتا تھا اور لمبے تڑنگے وجیہہ صدر ایوب کو ہوائی اڈے پر خوش آمدید کہنے کے لیے امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنی خاتون اول اور قتالہ عالم جیکولین کے ساتھ پہنچتے تھے۔ اور تو اور 1971 میں پاکستان کو دولخت کرنے کے باوجود، ہندوستان کا علاقے میں کچھ خاص ٹہکا نہ تھا۔ اور 1990 کی دہائی تک پہنچتے تک ہندوستانی مور کو پنکھ نہیں لگے تھے۔ یہ راجیو گاندھی کی خودکش حملے میں موت تھی جس کی وجہ سے من موہن سنگھ جیسا ٹیکنو کریٹ، وی پی سنگھ کے بعد وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا، اور آج سے تقریباً تیس برس قبل ایک نئے ہندوستان نے جنم لیا۔
اس نئے ہندوستان میں ترقی کی شرح دس فیصد تک جا پہنچی تھی۔ من موہن سنگھ نے تقریباً ایک ارب آبادی کے حامل ملک کے پھاٹک فری مارکیٹ اکانومی کے لیے کھولے تو دنیا بھر کی ملٹی نیشنلز دانت کچکچاتی اور ہل من مزید کا نعرہ لگاتی ہندوستان پر پل پڑیں۔ یہ ایک نئے، چمکیلے اور بھڑکیلے ہندوستان کا جنم تھا۔ ریشماں جو ابھی ابھی جوان ہوئی تھی۔ مارکیٹ کی برکت سے ہندوستان میں مس ورلڈ بھی ڈھونڈ لی گئی اور مس یونیورس بھی۔
1980 کی دہائی میں بھارت نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا اور کرکٹ کے بھگوان کا بھی وہیں جنم ہوگیا۔ چین، دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود اپنے پھاٹک بند کیے بیٹھا تھا اور بھارت کو انگریزی کا فائدہ بھی پہنچا۔ یوں ہندوستان مغرب کے لیے ایسا ملک بن کر سامنے آیا، جس کے قائد گاندھی جیسے گیانی اور نہرو جیسے سیکولر تھے، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تھی اور جہاں روحانیت بھی ایک ٹکے سیر بھا بکتی تھی۔ اگر اس رنگ میں کسی جلترنگ کی کمی تھی تو وہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری بالی ووڈ نے پوری کردی۔
فلم اور ٹی وی بنیادی طور پر خواب فروشوں کی آماجگاہ ہیں۔ 1990 سے پہلے بھی آبادی کے برتے پر بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری کا دنیا میں نام تھا، مگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے طاقت کا انجیکشن لگنے کے بعد بالی ووڈ نے اور طرح سے اڑان بھری۔ چولی اور جانگیہ سکڑ گئے، اور سنہرے بالوں اور تانبے کی رانوں والی گوریاں دیسی تانوں پر رقصاں ہوگئیں۔ ہیرو، ماورتی کی بجائے ہیلی کاپٹر اور رولز رائس سے اترنے لگے۔ جنگل میں منگل ہوگیا۔
بالی ووڈ کسی بھی فلم ڈائریکٹر کا خواب بن گیا، جہاں ہر فلم کے لیے چالیس، پچاس کروڑ شائقین کی مارکیٹ باہیں کھولے موجود تھی۔ بالی ووڈ نے جہاں دنیا بھر کو چمکیلا، بھڑکیلا، رائزنگ اور شائیننگ انڈیا بیچا، وہاں عام ہندوستانی کے زہن میں حقیقت کو فینٹسی سے بدل دیا۔ ان کے زہن میں ہندوستان ایک مہا دیو بن گیا تھا جس نے پورے جگ کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا تھا۔ سب سے خوبصورت ناریاں ہندوستان کی تھیں، سب سے وجیہہ ہیرو بھی وہیں سے تھے۔ اور سب سے بڑے شکتی شالی سورما، ہندوستانی فوج میں شامل تھے۔
ساتھ ہی دن دگنی رات چوگنی ترقی سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ ہندوستانی کھرب پتی ہوریے تھے اور انکی شادیوں میں امریکی صدور اور دنیا بھی کی اسٹیبلشمنٹ نے ناچنا شروع کر دیا تھا۔