یہ بات درست ہے کہ جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر سے پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر نہیں ہوں گے، جی ڈی پی اسی طرح رینگتی رہے گی، پاکستانی سیٹھ ٹیکس دینا شروع نہیں کریں گے، ہماری بے ہنگم ٹریفک معمول پر نہیں آئے گی، کچرے کے ڈھیروں پر مکھیاں منڈلاتی رہیں گی اور ہمارے ڈاکٹرز اور بابو لوگ وقت پر دفتر جانا شروع نہیں کریں گے اور نہ ہی اس سے سبز پاسپورٹ کی قدر و منزلت میں کوئی اضافہ ہو گا۔ پاکستانی ہونے کے حوالے سے کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہو گی، ایک کے بعد ایک دریا ہمارا منتظر ہے!
تقریروں سے بھلا کچھ بدلتا ہے؟ جب میں بارہویں جماعت کا طالبعلم بچہ تھا تو ایک دن ماڈل ٹاؤن کی داستان سرائے میں بیٹھے ہوئے میں نے مولویوں کی تقریروں سے تنگ آ کر، چمک کر کہا تھا کہ وہ تو "بس تقریریں ہی تو کرتے ہیں "۔ دنیا کے بہترین کہانی گو اشفاق احمد نے میری بات سن کر لحظہ بھر ٹھٹھک کر میری طرف دیکھا، پھر انھوں نے فہمائشی انداز میں انگشت شہادت بلند کی اور کہا، تقریر اتنی گئی گزری چیز بھی نہیں ہے، تقریر بھی تو ایک فعل ہے۔
صرف ایک بات کہہ دینا بھی ایمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جب کفار مکہ، اسلام قبول کرنے کے لیے کلمہ پڑھتے تھے تو اس سے پہلے انھیں گتکا نہیں کھیلنا پڑتا تھا یا رسے سے قلابازی نہیں لگانی پڑتی تھی۔ کلمہ بھی سیدھی سادی تقریر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔
پھر مجھ پر نظریں جما کر کہا’ جب تمہارے ماں باپ کا نکاح ہوا تھا تو اس وقت بھی ابا جان کو شمشیر زنی کے جوہر نہیں دکھانے پڑے تھے، بس سیدھی سی تقریر یا بیان تھا کہ قبول ہے اور پھر جو حرام ہے، وہ حلال ہو گیا، سو تقریر بھی ایک درجے کا فعل ہے اور اس کی اپنی فضیلت ہے۔ بات میرے دل میں ترازو ہو گئی۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب میں نے کسی کو تقریر کا طعنہ دیا تھا۔
پھر مولا نے مجھ جیسے گڈریے کو بھی تقریریں جھاڑنے کا موقع دیا۔ امریکی صدر کے سامنے بھی بولا۔ برطانوی، آسٹریلوی وزیراعظم کے ہمراہ اور پارلیمنٹ میں بھی بولا۔ بیس ہزار سے بڑے مجمع کے سامنے بھی بات کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ بہت سے سربراہان مملکت کو براہ راست بولتے دیکھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، صدر مشرف اور میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی تقاریر کی نوک پلک سنوارنے کا موقع ملا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بات جب اپنے دل کی بات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی ہو تو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی جدوجہد میں بڑے بڑے سورماؤں کو ہکلاتے دیکھا۔
اپنی زندگی سے آج تک تک جو سیکھا ہے وہ یہی ہے کہ وی آل لو ٹو میک اے اسٹیٹمنٹ۔ ہم چاہے تقریر کریں یا نہ کریں، ہماری زندگی ایک جملہ، ایک بیان ہوتی ہے اور شاید خان کی ساری زندگی کا حاصل بس وہی اسٹیٹمنٹ تھی جو اس نے جنرل اسمبلی میں کہہ ڈالی۔ خان نے جو کچھ کہا وہ کسی خادم حرمین شریفین، کسی ایرانی روح اللہ یا کسی ترک پاشا سے آج تک نہ کہا گیا۔
ایک تو یہ کہ مسلمانوں کا وچ ہنٹ بند کیا جائے اور اسلام کے نام پر دنیا کو ڈرانا دھمکانا ختم کیا جائے۔ ناموس رسالت کے معاملے میں مسلمانوں کی حساسیت کو ہر صورت مدنظر رکھا جائے۔ دوسرا یہ کہ مغرب کی اخلاقیات کو بھی اسی فٹے سے ناپا جائے جس سے وہ خود دنیا کو ناپتے ہیں اور انسانی حقوق پر دہرا معیار قابل قبول نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر کشمیر کو دنیا ایک چھوٹے اور بڑے کی لڑائی ہی سمجھ رہی ہے اور اقتصادی طور پر مضبوط بڑے کا پٹہ کھول چکی ہے تو پھر دما دم مست قلندر ہو کر رہے گا۔ یہ بھیڑیوں میں گھرے ایک مجبور ایٹمی شیر کی چنگھاڑ تھی جس کو واضح الفاظ میں دنیا کو بتا دیا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کو دیوار سے لگایا گیا تو پھر دیوار اڑ بھی سکتی ہے۔
تقریر کے بعد بھانت بھانت کے تبصرے سننے کو ملے۔ یہ کیا کہ خان جنرل اسمبلی میں بس تقریر جھاڑ کے آگیا؟ نہ کوئی بم پھوڑا، نہ ہوائی فائرنگ کی؟ جنرل اسمبلی میں ہر سال تقریری مقابلہ ہوتا ہے، جہاں طرح طرح کے سربراہان مملکت جمع ہو کر اپنی اپنی بولیاں بولتے اور اٹھ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ اگر عمران خان نے پوری جان لگا کر اپنا نکتہ نظر اجاگر کیا ہے تو اس میں اختلافی نکتہ کیا ہے؟ کشمیر، حرمت رسول، اسلاموفوبیا، مسئلہ کس بات کا ہے؟ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ یہ نہ دیکھیں کون کیا کہہ رہا ہے، بلکہ کیا کہہ رہا ہے؟
جنرل اسمبلی میں گزشتہ کئی برس سے ہم کیا کرتے ہیں؟ یہی دیکھا گیا کہ ایک گھگھو، گھگیاتا ہوا اٹھتا ہے اور کپکپاتی ہوئی آواز میں، بابوآنہ انگریزی میں وہی باتیں کٹ پیسٹ کر دیتا ہے جو پچھلے ستر سال سے ہم کرتے آ رہے ہیں۔ دل سے نہیں، گلے سے نکلی بے سری باتیں!
کون کہتا ہے کہ تقریروں سے دنیا نہیں بدلتی؟ گیٹس برگ کے میدان میں ابراہام لنکن نے بھی تقریر ہی کی تھی۔ آئی ہیو اے ڈریم بھی دل سے نکلی ہوئی ایک پکار تھی۔ تقریریں دنیا بدلتی ہیں مگر اس وقت جب مقرر اور سامعین کے دل ایک تال پر دھڑکتے ہوں۔ یہ روح فرسا منظر بھی دیکھنا تھا کہ بعض پاکستانیوں کو بھارتی مندوب کے بنگلہ دیش پر دیے گئے طعنوں اور عمران خان کو نیازی کہے جانے پر خوشی ہے! شرم تم کو مگر نہیں آتی!
ہمیں کوئی لیڈر تو کیا پچھلے ستر برس میں اچھا مقرر بھی جناح اور بھٹو کے سوا کون ملا؟ خان کے خطاب میں بھی صرف اس لیے کیڑے نہیں نکالے جا سکتے کہ وہ تحریک انصاف کا سربراہ ہے۔ خان نے پوری قامت اور وقار کے ساتھ اس بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی نمایندگی کی اور اللہ کے اعزازوں میں سے ایک اعزاز ہے۔
تاہم افراط و تفریط سے قطع نظر اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک تقریر ہی تھی۔ پاکستان کے موجودہ مسائل سے نپٹنے کے لیے کوئی گیڈر سنگھی نہیں ہے۔ اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طویل ترین تقریر کا اعزاز سربراہ مملکت کی حیثیت میں فیڈل کاسترو کو حاصل ہے۔ یہ تقریر ساڑھے چار گھنٹے جاری رہی۔ ایسی ہی غیر معمولی تقاریر میں ایک مشہور تقریر1974 میں یاسر عرفات کی تقریر بھی تھی۔ یاسرعرفات کو سن انیس سو چوہتر میں غیر جانب دار تحریک کے ممبر ممالک کی مشترکہ تحریک پر اقوام متحدہ میں آ کر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یاسرعرفات نے فوجی یونیفارم میں ملبوس پر جوش خطاب کیا مگر فلسطینیوں کے مسائل کم نہ ہوئے۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے بھی تقریر میں اس نے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو شیطان کہا تھا۔
لیبیا کے مرد آہن قذافی نے مسلسل ایک سو منٹ خطاب کیا اور امریکا کی طرف سے ہونے والی عالمی سازشوں پر گفتگو کی۔ سازشی نظریے بیان کیے۔ اور سب سے بڑھ کر روسی صدر خروشچیف کی تقریر کون بُھلا سکتا ہے جس میں اس نے مخالفین کو زندہ دفن کر دینے کی دھمکی دی تھی مگر تاریخ میں بس وہ جوتا زندہ رہ گیا جو انھوں نے فلپائن کے نمائدے کو چپ کرانے کے لیے ڈیسک پر مارا تھا۔ کشمیر کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر بہت سے حوالوں سے شہکار کہی جا سکتی ہیں، اگرچہ مسئلہ کشمیر پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خان نے تقریری مقابلے میں میدان مار لیا، اب عمل کا وقت ہے۔
پاکستان کے اندرونی حالات کچھ یوں ہیں ہیں کہ ابھی ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ گفتار سے آگے کردار کا مرحلہ ہے۔ جو تقریر کی گئی، اب اس کو جی کر دکھانا ہو گا۔ اس وقت جنوبی ایشیائی خطہ نیوکلیائی جنگ سے ایک بالشت بھر کے فاصلے پر ہے۔ تاہم اگر قومی افتخار کا مرحلہ آئے تو ہمیں اس وقت سینہ کوبی نہیں کرنی چاہیے۔ جینا سیکھو پاکستانیو! کم از کم بندے کو مرتے دم تک ضرور جینا چاہیے۔