Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khan In America

Khan In America

دنیا بھر میں بہت سے لوگ دم سادھے عمران خان کے دورہ امریکا کا انتظار کر رہے تھے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں امریکا کا دورہ، میک یا بریک’ ثابت ہوتا ہے، وہاں بہت سے لوگ دوربینیں لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت پر اس دورے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ مثبت خبر یہ ہے کہ یہ دورہ خان حکومت کے لیے کئی اعتبار سے وٹامن کا تازہ ٹیکہ ثابت ہوا ہے اور بہت سے حوالوں سے یہ پہلے سال کا سب سے بڑا معرکہ قرار پا سکتا ہے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس جون میں ورلڈ کپ کے دوران خان کی برطانیہ آمد کی بات طے ہو چکی تھی۔ لندن میں ویمبلے میں بیس سے تیس ہزار کے آس پاس کا مجمع برپا کرنے کی تیاریاں مکمل تھیں اور میں بھی اس اہم تقریب کا حصہ تھا۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم خان کی انسپائریشنل کہانی کی بنیاد پر لوگوں کو اکٹھا کریں تو پاکستانیوں کے علاوہ باقی قومیتوں کے بہت سے لوگ بھی جمع ہو جائیں گے۔

ہم لوگ موٹیویشنل اسپیکر ٹونی رابنز کو ہر سال لندن میں بلا کر 15 ہزار لوگ جمع کر لیتے ہیں تو توقع تھی کہ خان کی کہانی اس سے زیادہ سامعین کو متوجہ کر لے گی۔ اسی طرح کا ایک پروگرام خان کو 2016میں بھی پیش کیا گیا تھا، جس میں بھرپور دلچسپی ظاہر کی گئی تھی اور دن بھی طے ہوگیا تھا، مگر پھر وہ پاکستانی سیاست کی نذر ہوگیا۔

جون 2019 کا دورہ برطانیہ، سابق وزیر اعظم تھیریسامے کے منظر عام سے ہٹنے کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا، کیونکہ برطانوی ایوانوں میں کھلبلی کا سماں تھا۔ ویمبلے میں خان کے لیے تقریب کا آئیڈیا، بھارتی وزیراعظم مودی کے استقبال کے حوالے سے تھا جب لگ بھگ ساٹھ ہزار بھارتی وہاں جمع ہوگئے تھے۔ سوچا گیا تھا کہ پاکستان سے باہر اتنی تعداد میں پاکستانیوں کا اکٹھا ہونا، بہت سوں کا لہو گرمائے گا اور برطانوی حکام پر بھی اس کا خاطر خواہ اثر ہوگا۔ خیر، ویمبلے میں تو نہ سہی، واشنگٹن کے کیپیٹل ایرینا میں ہونے والے اجتماع نے وہی کام کر دکھایا۔

میں نومبر 2015میں ویمبلے میں وزیراعظم مودی کے جلسے میں موجود تھا۔ یہ تقریب چار گھنٹے سے زیادہ جاری رہی تھی اور خاص بات یہ تھی کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس کی خود میزبانی کی تھی۔ اوپننگ لائن کچھ اس طرح سے تھی، وزیراعظم مودی، کیا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کو نظر آ رہا ہے؟ یہ وہ برٹش انڈین ہیں جو گریٹ بریٹن میں گریٹ نس واپس لا رہے ہیں۔

مودی کے آنے سے پہلے جلسے نے انڈین آئیڈل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ گانے، بجانے، رقص کرنے والے اور برطانیہ میں اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچنے والے بھارتی باری باری اسٹیج پر آتے رہے اور بھارت کی عظمت کے گن گاتے رہے۔ خاص بات یہ تھی کہ بھارتی جنتا پارٹی کی غالب موجودگی کے باوجود جلسے نے بی جے پی کے پارٹی جلسے کا رنگ نہ پکڑا۔ مودی نے بھی کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک فی البدیہہ گفتگو کی اور بھارت کے حوالے سے اپنے منشور اور ویژن کے متعلق آگاہ کیا۔

خان کے جلسے نے، پاکستان سے زیادہ پی ٹی آئی کے جلسے کا رنگ اختیار کر لیا۔ گفتگو میں کافی کسر رہ گئی۔ امریکی پاکستانیوں نے وہاں بہت کمال دکھایا ہے، اس زاویے کو نظر انداز کردیا گیا۔ گفتگو میں بھی، گھر کے اندر کے پوتڑے باہر آکر دھوئے گئے۔ کسی حد تک ضرورت تھی اور کافی کچھ ضرورت سے زیادہ بھی تھا۔ گفتگو کا سب سے بہترین حصہ وہ تھا جس میں رائزنگ پاکستان کی بات کی گئی، میرٹ اور سسٹم کے ذریعے پاکستان کو دوبارہ عظیم بنانے کی بات کی گئی۔ یہ تینوں باتیں، اوورسیز پاکستانیوں کی دکھتی رگیں ہیں اور وہاں موجود سامعین نے بھرپور والہانہ طریقے سے رسپانس بھی دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسا والہانہ اور عاشقانہ مجمع خان کے علاوہ کوئی جمع نہیں کرسکتا تھا۔ وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک کرنیوالے صاحب، پانچ سو بندہ جمع ہونے کے خطرات سے ہی بے حال ہو جایا کرتے تھے۔

کیپیٹل ایرینا کے جلسے کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ عمران خان کی امریکا میں، ہوا’ بندھ گئی جس کا خاطر خواہ اثر صدر ٹرمپ کے ساتھ ون آن ون ملاقات میں بھی ہوا۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ امریکی صدر، جسے پچھلے چند عشروں میں حالت رکوع میں موجود پاکستانی رہنماؤں سے ملنے کی عادت تھی، کسی ایسے پاکستانی وزیر اعظم سے ملا جو اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا تھا۔

باڈی لینگویج کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس ملاقات کا شدت سے انتظار تھا کہ سطور اور بین السطور بہت کچھ کہا جائے گا۔ ٹرمپ سے دو، (صدر بننے سے پہلے بحیثیت اسپیکر) اور خان سے مختلف مواقع پر درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ دونوں کی بدن بولی کو بھرپور پڑھا تھا، کچھ قیافے لگائے تھے جو تقریباً جوں کے توں پورے ہوئے۔ میں اس فیلڈ میں اپنے بیس برس کے تجربات سامنے رکھتے ہوئے دونوں کو پرفارمنس کے اعتبار سے برابر نمبر دوں گا۔

ہم میں سے ہر ایک کا سگنیچر پوز ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا بھی ایک خاص پوز ہے اور وہ اسی میں نظر آیا۔ یہ ڈیل میکر یا بریکر کا پوز ہے اور اکثر سربراہی کانفرنسوں میں وہ ایسے ہی بیٹھا نظر آئے گا۔ وہ عموماً کرسی کی نکڑ پر قدرے آگے جھک کر بیٹھتا ہے۔ اور اسی دوران اس کے ہاتھ ریورس اسٹیپل بناتے ہیں جس میں دونوں ہاتھ نیچے کی جانب مل کر تکون بناتے ہیں اور انگوٹھے تکون کی چھت۔ جب ایک لیڈر آگے ہو کر اس طرح بیٹھے تو اس کا مطلب ہوتا ہے میرے پاس بکواس کے لیے وقت نہیں، سو میرے کام کی بات کرو، ورنہ میں تو گیا۔

اس کا یہ مطلب بھی ہوتا ہے کہ آئی ایم رننگ دا شو۔ اسٹیپل اعتماد اور باس پن کو ظاہر کرتا ہے اور ریورس اسٹیپل اس امر کو کہ میں آپ کی بات بخوبی سن رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ سر کی خفیف جنبش بھی مثبت توجہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ خان کا سگنیچر پوز کرسی کی پوری نشست استعمال کرتے ہوئے کمر کرسی کی پشت سے ٹکاتے ہوئے، ٹانگ پر ٹانگ رکھنا ہے۔ یہ بھی اعتماد کا خاص پوز ہے۔ گو سفارتی زبان میں زیادہ مقبول نہیں کہ اس سے رعونت جھلکتی ہے۔

خان بات کرتے ہوئے انگلی کا اشارہ کرتا ہے جو کرکٹ میں فیلڈنگ کی اٹھک بیٹھک کرنے کی عادت سے متعلق ہے اور جارحانہ ہونے کی وجہ سے ڈپلومیسی کی دنیا میں زیادہ مقبول نہیں ہے۔ کانفرنس میں ٹرمپ اپنے مخصوص من چلے انداز کی وجہ سے چھایا ہوا تھا۔ جو لوگ ڈپلومیسی کی زبان سمجھتے ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ اس نے کھلنڈرے انداز میں بیٹھے بیٹھے دھمکیاں اور آفریں ساتھ پھڑکا دیں۔ کسی بھی اور امریکی صدر کو یہ سب کچھ کہنا، تقریباً ناممکن تھا مگر اپنے آؤٹ آف دا باکس انداز کی وجہ سے ٹرمپ یہ کر گزرا۔ مثلاً کشمیر پر ثالثی کی آفر اور یہ پٹاخہ پھوڑ دینا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھی اس حوالے سے ثالثی کی درخواست دی ہے، ایران جھوٹ بولتا ہے مگر پاکستان نہیں (آہم، آہم)، کیوں مسٹر پرائم منسٹر؟ ہم نے دنیا میں اربوں ڈالرز لٹائے ہیں، پاکستان بھی یہ کیش لینا پسند کرے گا (آہم، آہم )۔ مجھے پاکستانی رپورٹر امریکیوں سے زیادہ پسند ہیں۔

پاکستان پہلے اس لیے بدمعاشی کر رہا تھا کہ انھیں غلط صدر سے پالا پڑا تھا، اب وہ اصلی صدر سے ڈیل کر رہے ہیں (سو غلطی گنجائش نشتہ)۔ بار بار دہرانا کہ پاکستان نے افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنا ہے (کوئی چوائس موجود نہیں)۔ ہم نے افغانستان میں بموں کی ماں کی بوچھاڑ کی تو زمین پر چاند جتنا گڑھا پڑ گیا (ایک بلی بوائے کی دھمکی)۔ اور پھر آخر میں خان کو پیش کش کہ میں تمہاری کیمپین رن کروں گا۔ اور پھر دھوبی پٹڑا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت بیس فیصد نہیں، بیس گنا بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس پوری گفتگو میں سوائے پریس کے بارے میں بات کرنے کے ٹرمپ نے پوکر فیس رکھا اور چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ وزیر اعظم خان نے اپنے آپ کو پروقار طریقے سے سنبھالا اور ایزی نظر آیا۔

اس نے شلوار قمیض کو عزت دی اور اچھا ہوا کہ شیروانی نہیں پہنی۔ گفتگو کے درمیان میں مشکل مراحل بھی آئے جب ایران، کشمیر اور پاکستان کے وعدے ایفا کرنے کی باتیں ہوئیں۔ اس وقت خان اپنی ہاتھ کی انگوٹھی سے کھیلتا نظر آیا جو کہ اس کے اندرونی اضطراب کی عکاسی تھی۔ چونکہ گفتگو کی کمانڈ ٹرمپ نے اپنے ہاتھ میں رکھی تو خان اس دوران دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے نظر آیا۔ بدن بولی کا یہ اشارہ خاص طور پر اس وقت سامنے آتا ہے جب سننے والا اپنی طوفانی سوچوں کے اوپر بند باندھ رہا ہوتا ہے۔

خان کے اندر بہت کچھ مچل رہا تھا، مگر اس نے اپنے اوپر قابو پائے رکھا، جو خان کو جانتے ہوئے ایک معرکے سے کم نہیں ہے۔ خان کی شکل میں پوری دنیا کو ایک ایسا پاکستانی لیڈر نظر آیا جو اعتماد سے بھرپور تھا اور جسے اپنی بات آگے پہنچانے کے لیے کسی پرچی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں قائد اعظم ثانی یا کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو کیسے کیسے لطیفے دیکھنے کو ملتے۔ خان کا افغانستان پر جو دیرینہ مؤقف تھا، ایک طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آیا کہ طالبان صرف لاتوں کے بھوت نہیں ہیں، یہ امر خاص طور پر خان کے حق میں جاتا ہے۔

خان میں بحیثیت اسٹیٹس مین کچھ کسر نظر آئی۔ جب بھی وہ بولا، کھل کر نہیں بولا اور ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملاتا نظر آیا۔ عافیہ صدیقی کا سوال بھی گول مول ہوگیا، جو ویسے بنتا بھی تھا۔ لگتا یہی ہے کہ عافیہ کا تبادلہ شکیل آفریدی سے کر کے قوم کو بھی لالی پاپ دے دیا جائے گا اور انکل سام کو بھی رجھا لیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں خان کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہاتھ ڈھیلا رکھنا زیادہ بہتر رہا، ورنہ وائٹ ہاؤس میں وجنے والی چول بندے کا سر لے جاتی ہے۔ پاکستان میں میڈیا پر پابندی کے سوال کو بھی بس سر سے اتارا گیا۔ خان مزاح کو استعمال کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا، جیسے ٹرمپ اسے بطور ہتھیار برتتا ہے۔

پریس کانفرنس، مجموعی طور پر گاجر اور ڈنڈے کا ملا جلا امتزاج تھا۔ ٹرمپ نے اپنی وش لسٹ پاکستان کے حوالے کردی ہے اور مچل بیٹھا ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ ساتھ جانے والے مقتدر حلقے اس امر کو یقینی بنائیں گے۔ نارتھ کوریا کے بعد پاکستان، ٹرمپ کی لسٹ پر اونچے نمبر پر تھا جسے سدھایا جانا ضروری تھا۔ تاہم ٹرمپ کو اگر اپنی مرضی کی ڈیل نہ ملی تو وہ گاجر کو ہی ڈنڈے کے طور پر استعمال کر گزرے گا۔ پریس کانفرنس کا سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا، جب وہ بخیر و خوبی ختم ہوگئی۔ اس وقت واشنگٹن میں موجود کتنے ہی لوگوں اپنے اندر دو گھنٹے سے رکا ہوا سانس چھت کی طرف اچھالتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا ہوگا۔