ہم سب عام لوگ ہوتے ہیں، پر کوئی نہ کوئی بحران ہمیں ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھر ہم خاص ہوجاتے ہیں۔
میں مرد بحران کی لیڈر شپ تھیوری کا قائل اور گھائل ہوں۔ لاکھوں لوگوں سے بولنے اور ہزاروں کی کوچنگ کا موقع ملا تو یہی دیکھا کہ بحران کا غوطہ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ ورنہ ہم میں سے اکثر لوگ تنویمی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کھلی آنکھوں سے سوتے ہیں۔ اب سوتے کو تو بندہ جگائے، جاگتے کو کون جگائے؟ یہ کام بحران کرتا ہے۔
بحران ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ کوئی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے، کسی کے اندر روشنی در آتی ہے تو کوئی پتھرا جاتا ہے۔ آپ نے وہ مشہور کہانی تو سنی ہی ہوگی جس میں پانی ابال کر ایک مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں گاجر، انڈا اور چائے ڈالی جاتی ہے۔ گاجر، گرم پانی میں جا کر نرم ہوجاتی ہے، انڈا جو نرم ہوتا ہے، وہ ابل کر سخت ہوجاتا ہے اور چائے، ہاں چائے ایک عجیب و غریب کام کرتی ہے اور پورے پانی کی ماہیت کو ہی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ جب آزمائش آتی ہے تو اسی طرح سے ہمیں الٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔ مگر کبھی کبھی یہ ہمیں راس آتی ہے اور پوری زندگی کو نئے سرے سے نئے صفحے پر لکھ دیتی ہے۔
میں نے ان گنت مواقع پر بہت سے مختلف ملکوں میں بحران ٹیسٹر لگایا ہے اور کلچر اور تہذیب سے قطع نظر جواب ملتا جلتا ہی آیا ہے۔ جب بھی لوگوں سے پوچھا کہ وہ اپنی زندگی کی کایا پلٹنے والے لمحات کے بارے میں سوچیں، جن کے بعد ان کی دنیا زیر و زبر ہوگئی ہو اور پھر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہوں تو نوے فیصد افراد کو کوئی نہ کوئی بحران یاد آتا ہے۔ یہ بحران ہی ہے جو بقول اقبال بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔ آپ اپنی زندگی پر بھی نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے چیدہ چیدہ لمحات یاد آجائیں گے۔ اس تھیوری کی رو سے ہم سب کسی نہ کسی بحران کی پیداوار ہیں۔ وی آر میڈ ان کرائسس۔
ہم سب اپنی موجودہ زندگیوں کے سب سے بڑے بحران سے گزرے ہیں جسے ہم کورونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو دسمبر 2019 سے لے کر دسمبر 2020 کا وقت ایک سائنس فکشن سے کم نہیں ہے۔ وائرس کے خوف نے کھربوں ڈالر کا نقصان کیا، مارکیٹیں اجاڑ دیں اور دنیا کے معروف ترین ملکوں میں سناٹے کا راج ہوگیا۔ نفسیات اور لیڈرشپ کے طالب علم ہونے کے ناطے یہ طلسم ہوش ربا میرے اور معروف مصنف قیصر عباس، دونوں کے لیے ہی ایک انوکھا تجربہ تھا۔
بنیادی طور پر وہی اس خیال کو لے کر آئے اور ہم دونوں نے اس پر سوچنا، تحقیق کرنا، کھوجنا اور جانکاری کرنا شروع کیا۔ مارچ سے لے کر اکتوبر تک ٹیموں کے ساتھ بلامبالغہ ہزاروں گھنٹے صرف ہوگئے، دو سو کے آس پاس بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا تقابلی جائزہ کیا اور درجنوں عالمی لیڈرز کے رویوں کا مطالعہ کیا۔ یہ ساری عرق ریزی ایک کتاب میں ڈھل گئی اور دنیا کے جانے پہچانے امریکی پبلشر " ہے ہاؤس" نے اسے چھاپنے کی حامی بھر لی جو جنوری 2021 میں دنیا بھر میں دستیاب ہوگی۔
2020 کے اس بحران کے حوالے سے بہت سے چشم کشا اور روح افزا پیغامات ملے جن کا نچوڑ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
1: ہر چیز کی قیمت اس وقت تک ہے جب تک اس کا کوئی مصرف ہے۔ 2: زندگی میں کچھ بھی مستقل نہیں۔ حتیٰ کہ پریشانیاں بھی عارضی ہیں۔ 3: گولز بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم گولز، جب کسی بحران کے سبب گول مول ہوجائیں، تو پھر تبدیلی سے نباہ کرلینا چاہیے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ہر تنگی کے بعد فراوانی ہے۔ 4: رزق کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ جب احتیاط امکانات کو نظر بند کرے تب بھی کچھ دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ 5: جن لوگوں کو وقت کی کمی کی شکایت تھی، انھیں اس سال بے شمار وقت مل گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا مصرف کیا ہوا۔ کچھ لوگوں کے لیے وقت ہمیشہ کم رہے گا، کچھ کے لیے ہمیشہ زیادہ رہے گا۔ 6: انسان لامحدود بھی ہے اور بے بس بھی۔ زندگی، اختیار اور بے اختیاری کے درمیان کا کچھ راستہ ہے۔ ہم واقعی پاؤں مار کر زمین میں چھید نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنا سر بادلوں میں گھسا سکتے ہیں۔ 7: کچھ چیزیں ہم فار گرانٹڈ لیتے ہیں۔ لمس سے دوری ہوئی تو معلوم ہوا کہ اپنوں کو چھو سکنا کتنا قیمتی ہے۔ اگرچہ ہم اس طرح کھا سکیں، چبا سکیں، سونگھ سکیں، دیکھ سکیں، سن سکیں، جیسے کہ کل نہیں ہوگی تو شاید ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کر سکیں۔ 8: جب آپ خالق کی تقسیم سے راضی ہوجائیں تو لمحہ موجود میں جینا شروع کر دیتے ہیں۔ 9: بچت کرنا لازمی ہے، خاص طور پر شادی شدہ گھرانے کو برے دنوں کی تیاری کرنی چاہیے کہ کوئی بھی بحران کہیں بھی ٹکرا سکتا ہے۔ 10: بندہ، بندے کا دارو ہے۔ دنیا کے سارے مسائل ان کے دم سے ہیں تو سارا رس، خوبصورتی اور سارے مسئلوں کا حل بھی انھی کے دم سے ہے۔ 11: ہمارے اندر ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہمت موجود ہے، ہم اپنی توقع سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور ہماری برداشت ہمارے خیال سے زیادہ ہے۔ 12: کچھ اسپیڈ بریکر اس لیے آتے ہیں کہ سوتے کو جگا سکیں۔ 13: بعض اوقات آپ کی سب سے بڑی کامیابی بس سانس لیتے رہنا ہے، موجود رہنا ہے۔ 14: جس طرح داغ اچھے ہوتے ہیں، اسی طرح بحران بھی اچھے ہوتے ہیں، سوتے کو جگاتے ہیں اور جاگنے والے کو راستے پر رواں کرتے ہیں۔ 15: زندگی ایک خاص حد تک سیریس لینی چاہیے، تاہم اس میں کسی حد تک دیوانگی اور کسی حد تک رقص ملتے رہنا چاہیے۔ 16: بندے کو تب پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے جب اس کے ہاتھ سے سب کچھ کھینچ لیا جاتا ہے۔ جو باقی بچتا ہے، وہی اصل ہے۔ 17: کوئی کامیابی یا بحران انسان کو تبدیل نہیں کرتا، بلکہ جو اس کے اندر ہے، اسی کو دگنا کرکے باہر لے آتا ہے۔ 18: زندگی میں چھوٹی چیزیں ہی اصل میں بڑی چیزیں ہوتی ہیں۔ 19: کبھی کبھی فاصلے پر جا کر پتہ چلتا ہے، کہ کس رشتے کی کتنی ضرورت ہے، یا نہیں ہے۔ 20: کورونا کی وبا سے یہ سیکھا کہ بندے کے پاس اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے، اپنے سپنوں کو سچا کرنے اور اپنی مرضی کی زندگی جینے کے لیے کوئی بہانہ بھی کافی نہیں ہے۔ بہانہ ڈھونڈنے والے کو بہانہ مل جائے گا، وجہ ڈھونڈنے والے کو وجہ مل جائے گی۔
نئے سال کے آغاز میں آپ سب پڑھنے والوں کے لیے بہت سی دعائیں۔ دعا ہے آپ بحرانوں سے دور رہیں، مگر خدانخواستہ پالا پڑ جائے تو وہ آپ کے لیے خیر کا موجب بنیں۔ اگرچہ آپ کے بحر کی موجوں میں اضطراب آہی جائے تو پھر آپ سرکش موجوں پر سوار ہوسکیں۔ آمین۔