یہ زندگی ہے ہی کیا؟ یہ بس خدا کے ہاتھوں سے آنے سے خدا کے ہاتھوں میں جانے تک کا درمیانی وقفہ ہے۔ بس مرتے دم تک انسان کو ضرور زندہ رہنا چاہیے۔
یہ 22 جون 1986 کی بات تھی۔ ارجنٹائن کا فٹ بال میچ، ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کے ساتھ ہو رہا تھا۔ 10 نمبر کی شرٹ پہنے فٹ بال کے جادوگر ڈیگو میرا ڈونا کی طرف فٹ بال پھینکا گیا۔ وہ اچھلا تاکہ ہیڈ کر کے گیند کو گول میں پھینک سکے، تاہم فٹ بال اس کے سر کے بجائے اس کے ہاتھ کو لگا اور گول پوسٹ میں داخل ہو گیا اور گورا گول کیپر دیکھتا ہی رہ گیا۔
پرانے وقت تھے، تھرڈ امپائر کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ریفری نے گول ڈیکلیر کر دیا اور یوں ارجنٹائن ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا۔ پوری دنیا میں شور مچ گیا اور یہ فٹ بال کی تاریخ کے متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک بن گیا۔ چونکہ انھی دنوں میں برطانیہ نے جزائر فاک لینڈ پر ارجنٹائن کی فوج کو رگڑا دیا تھا تو یہ ورلڈ کپ جیتنا ارجنٹائن کے لیے اور بھی بڑی خبر بن گیا تھا۔
ایک بہت بڑی اور پر ہجوم کانفرنس میں ایک نک چڑھے صحافی نے میرا ڈونا پر دھاوا بول دیا۔
"ڈیگو، کیسا تھا تمہارا یہ گول، ذرا سچ سچی بتا دو؟ "
ڈیگو میرا ڈونا نے قہقہہ مارا اور کہا "اس گول میں بس تھوڑا سا ڈیگو کا سر لگا، باقی خدا کا ہاتھ تھا۔ یوں ہینڈ آف گاڈ ایک تاریخی بیان بن گیا۔ لیکن خیر ارجنٹائن صرف اس گول کی وجہ سے نہیں جیتا تھا، بلکہ 60 میٹر کے اس ڈربل کی وجہ سے ناقابل شکست رہا تھا جس میں میرا ڈونا پانچ گورے کھلاڑیوں کو دھول چٹاتا ہوا، گول کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
2002 میں اسے گول آف دا سنچری کا اعزاز دیا گیا۔ اس گول پر سب سے خوبصورت تبصرہ اس تبصرہ نگار کا تھا جس نے کہا تھا" اگر میرا ڈونا برف کے میدان میں کھیل رہا ہوتا تو برف پر اس کے پنجوں کے نشان تک موجود نہ ہوتے۔
جو لوگ میراڈونا کو جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ الفاظ اس کے دل سے نکلے تھے۔ وہ ایسا ہی تھا۔ یوں تو وہ بیسویں صدی کے کھلاڑی کا ایوارڈ جیتا تھا مگر فٹ بال کے میدان میں چھ فٹے دیو زادوں کے درمیان پانچ فٹ پانچ انچ کا وہ ایک اچھوتا کھلاڑی تھا جو 1960 میں ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے باہر واقع جھونپڑ پٹی میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے سات بہن بھائی تھے۔ 3 سال کی عمر میں اسے کسی نے فٹ بال کا تحفظ دیا اور ڈیگو کھیل کا دیوانہ ہوگیا۔
جب وہ آٹھ برس کا تھا تو ایک جوہری کی نظر میں آ گیا اور وہاں سے اس کی زندگی کا رخ بدلنا شروع ہوگیا۔ اس پر شروع ہی سے خدا کی عنایت تھی جس کا وہ برملا اعتراف بھی کیا کرتا تھا۔ 18 سال کی عمر میں وہ فیفا ورلڈ یوتھ چیمپئن شپ جیتنے کی وجہ سے اسٹار بن چکا تھا۔"میں خدا کا چہیتا ہوں " وہ اپنی چھاتی پیٹ کر کہتا تھا۔" اس نے میرے پانچ فٹ کے جسم میں بجلیاں بھر دی ہیں۔ اس نے بچپن سے ہی میرے اوپر کرم کیا تھا۔ تبھی میں ہر گول کے بعد اسے یاد کرتا ہوں۔ ایسا نہ کروں تو مجھ پر لعنت ہو۔
کرم کی تو واقعی حد ہو گئی تھی۔ 1982میں ایک جھونپڑی میں رہنے والے میراڈونا کی ٹرانسفر فیس ساڑھے سات ملین ڈالر ادا کی گئی جو اس وقت کے حساب کتاب سے ورلڈ ریکارڈ بن گیا۔ 1980 کے اختتام تک وہ فٹ بال کی تاریخ کے بہترین کھلاڑی کے طور پر پہچانا جا چکا تھا۔
خیر یہ تو اسٹیج تھا، اسٹیج کے پیچھے وہ صرف ڈسپلن اور جنون تھا۔ وہ جب بھی ٹریننگ پر جاتا تو پچ سے واپس آنے والا سب سے آخری کھلاڑی ہوتا۔ جب وہ مشقت پر آتا تو پچ ہار جاتی اور میراڈونا جیت جاتا۔ چھوٹے قد کا ہونے کی وجہ سے کبھی اس کا جسم بے ڈول ہو جاتا مگر دیکھتے ہی دیکھتے جیسے وہ کسی تیشے سے اپنے آپ کو گھڑ لیتا تھا۔
میرا ڈونا پچ کا چیتا تھا مگر ذاتی زندگی بحرانوں کا شکار رہی۔ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔ 1980 میں اس کو کوکین کی لت لگ گئی جس نے شراب نوشی کے آمیزے کے ساتھ مل کر اسے اجاڑ دیا۔ ورلڈ کپ میں ڈوپنگ ٹیسٹ کے دوران وہ پکڑا گیا اور جرمانے کا سزاوار ٹھہرا۔ کوکین اور نشے کی لت نے اگلے دس سال تک اس کا پیچھا کیا۔
پھر وہ مالی بحران کا شکار بھی ہوگیا اور جب مرا تو اس کے ذمے چالیس ملین ڈالر کا ٹیکس واجب الادا تھا۔ میرا ڈونا ذات کا سخی تھا اور اس کو غریبوں سے محبت تھی۔ 1987 میں پوپ جان پال کے ساتھ ملاقات کے دوران وہ پوپ سے الجھ پڑا تھا " میں ویٹیکن میں تھا اور ہر طرف سونے کے محلات اور پچی کاری والی نادر چھتیں دیکھ رہا تھا۔ پوپ بار بار ارجنٹائن کی غربت کا ذکر کر رہا تھا تو میں نے کہا، یار اس رونے سے کیا ہو گا، یہ پانچ سات چھتیں بیچ کر ہی غریب بچوں پر لٹا دو۔
ارجنٹائن کے لیے میراڈونا ایک کھلاڑی نہیں دیوتا تھا۔ ملک مسلسل ملٹری ڈکٹیٹرز کے زیر نگین رہا ہے اور غربت کے مسائل بے قابو ہیں۔ پچلے چالیس سال سے وہ میراڈونا کے ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا رہا ہے۔ ایک عام ارجنٹائنی شہری کے لیے میراڈونا ایک خواب تھا جو سچا ہو گیا تھا۔