مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بھارتی یکطرفہ اقدام اور غاصبانہ قبضے کو ایک برس بیت گیا۔ اس دوران کشمیریوں کے جذبہ حریت کو قریباً سات لاکھ سکیورٹی فورسز کے ذریعے کچلنے کی مودی کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ 365 دن گزر جانے کے باوجود کشمیر میں حالات آج بھی نارمل نہیں ہیں۔ طویل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نفاذ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ سینکڑوں نوجوان جن میں برہان وانی، سرتاج احمد، پرویز احمد، کمانڈر ریاض نائیکو، کمانڈر یاسین ایٹو، ڈاکٹر سبزار، پروفیسر رفیع بٹ، ڈاکٹر منان بشیر وانی، جنید اشرف صحرائی قابل ذکر ہیں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں کشمیری مسلسل پابند سلاسل ہیں حتیٰ کہ وہ کشمیری جن میں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں جو بھارتی سنگینوں کے سائے میں کشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں بھی پابند سلاسل ہیں۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، پورے بھارت میں مسلمانوں کو مودی کی نفرت انگیز اور مسلم کُش پالیسیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کی شہریت کے حوالے سے ایک مسلم دشمن قانون بھارتی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود نافذ کیا گیا جس کا واحد مقصد کئی دہائیوں سے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق عیدالاضحی کے روز ایک مسلمان کو محض اس لیے ہتھوڑے سے مار مار کر ادھ موا کردیا گیا کہ اس پر شک تھا کہ وہ قربانی کا گوشت لے کر جا رہا ہے، اس سارے واقعہ کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کس درندگی سے مسلمانوں کو تیسرے درجے کے شہری بنایا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کشمیریوں کی الگ شناخت ختم کرنے کے خلاف آج 5 اگست کو یوم استحصال کشمیر، کے طور پر منا رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انتہائی پرجوش انداز سے یوم استحصال، منانے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق سرینگر کی جامع مسجد میں تالے پڑے ہیں ہم وہاں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔ حکومت پاکستان کا یہ عزم خوش آئند ہے تاہم مسئلہ کشمیر پر محض بڑھکیں مارنے سے کشمیری عوام پر ظلم کی سیاہ رات ختم ہو گی اور نہ ہی ان کی مشکلیں آسان ہونگی۔ قریشی صاحب جوش خطابت میں کچھ زیا دہ ہی آ گے نکل گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ بن گیا ہے کہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لیے ہوش کے بجائے جوش میں مبتلا کر دیا جائے۔ ہم کشمیر کاز کے لیے کارگل سمیت کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہر اپوزیشن جماعت کی اس الزام تراشی کے باوجود کہ حکومت وقت نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے، کشمیرکاز کی دامے درمے سخنے مدد جاری ہے۔ اب کئی دہائیاں گزرنے کے بعد قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشمیر پر ایک اور جنگ تباہ کن ثابت ہو گی۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ نریندر مودی اور اس کے ہندو توا کےساتھی پاکستان کے خلاف مسلسل جارحانہ اقدامات کر رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول میدان کارزار بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کئی بار بھارتی ہائی کمشنر یا ان کے کسی نمائندے کو فارن آفس طلب کر کے باضابطہ احتجاج بھی کر چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان پر اگر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان اپنا دفاع کرنا بخوبی جانتا ہے۔ یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ چین ہما را بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ حال ہی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی سالگرہ جو ہر سال پاکستان میں بھی منائی جا تی ہے۔ 93 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست طور پرکہا کہ دونوں ملکوں کی افواج پاکستان اور چین کے سٹرٹیجک تعلقات کا لازمی جزو ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے۔ اس موقع پراسلام آبا د میں چینی سفیر یاؤ جنگ نے اپنے پیغام میں کہا کہ چین پاکستان کے سا تھ فوجی تعاون کو فروغ دینے کی ہر کوشش میں تعاون کرے گا کیو نکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کے دوطرفہ تعلقات خطے میں امن اور استحکام کے لیے لازمی ہیں۔
یقینا لداخ میں بھارت کی ناکام یلغار کے بعد چین اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، پاکستان کو ا س کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ نریندر مودی اب چین سے تجارتی تعلقات کو بھی ڈاؤن گریڈ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ خطے میں بھارت کا ستارہ گردش میں ہے۔ ایران نے چاہ بہا ر سٹرٹیجک منصوبے سے اس کی چھٹی کرادی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے جو ہر وقت بھارت کا ہی دم بھرتی تھیں ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر کو بسیار کوششوں کے باوجود ملاقا ت کا وقت ہی نہیں دیا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران اور بنگلہ دیش نے چین کے ایما پر ہی بھارت سے منہ موڑا ہے۔ وزیرا عظم عمران خان کا حسینہ واجد کو عید سے قبل فون کرنا درست حکمت عملی ہے، تاہم جب خان صاحب نے کشمیر میں ہونے والے مظالم کا ذکر چھیڑا تو محترمہ حسینہ واجد نے ٹکا سا جواب دیا کہ یہ تو بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
کشمیر کو پاکستان بنا نے اور سرینگر کی جا مع مسجد میں نما ز ادا کرنے کے لیے بہت سے لوازما ت ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں سفارتی محاذ پر کشمیر کاز کے لیے سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زمینی حقائق شاہ محمود قریشی کی رجائیت پسندی کا سا تھ نہیں دیتے۔ امریکی صدر ٹرمپ اس معاملے میں بھارت کے موقف کے حامی ہیں کیونکہ بھارت چند دہائیوں سے امریکہ کا سٹرٹیجک اوراقتصادی حلیف بن چکا ہے۔ ٹرمپ کی چین کے ساتھ حالیہ مخاصمت کے بعد امریکہ اور بھارت مزید قریب آ گئے ہیں یہی حال یورپی ممالک کا ہے۔ ہمارے اسلامی برادران تو اب کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے حق میں زبانی جمع خرچ سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی آج کل اندرونی سیاست میں زیادہ مصروف ہیں، بین الاقوامی سفارتکاری کل وقتی کام ہے، کشمیر کاز کے حوالے سے انہیں امریکہ سمیت دنیا کے جن بڑے دارالحکومتوں کے دورے کرنے چاہئے تھے وہ نہیں کر پائے۔ ضروری ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی جنگی جنون بڑھانے کے بجائے کشمیر کاز کے لیے سفارتی سطح پر کوششوں کو تیز تر کریں۔ کشمیر کا بہترین سفارتی حل تو بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات میں ہی مضمر ہے لیکن مودی اپنی نفرت کی سیاست کی بناپر پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تعاون پر آمادہ نہیں۔ جب تک پاکستان اندرونی طور پر خلفشاراور محاذ آرائی کا شکار رہے گا، اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے ہمیں کشکول لے کر دنیا بھر میں پھرنا پڑے گا تو دنیا میں ہماری بات سنی ان سنی ہی کر دی جائے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوسال مکمل ہونے کو ہیں۔ خان صاحب کو اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کے حوالے سے ترجیحات بدلنا ہونگی بصورت دیگرموجودہ ڈگر پر چلتے ہوئے ہم کشمیری عوام کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے حوالے سے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔