Wednesday, 26 March 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Maa Ji Ke Baghair

    Maa Ji Ke Baghair

    ہم گاؤں والے اپنی مٹی کو ماں کا درجہ دیتے ہیں اور ہمہ وقت اپنے خمیر کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ان جذبات کو پروان چڑھانے میں ہمارے والدین کی تربیت اور اس دیہاتی وسیب کے اثرات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے جہاں اپنائیت اور سادگی سے سرشار زندگی ہمیں مسلسل اپنے رومان بھرے حصار میں جکڑ لیتی ہے۔ گاؤں سے رغبت دراصل اپنے ماں باپ سے محبت کا اظہار بھی ہوتی ہے جنہوں نے ہمیں اس ماحول میں جنم دیا ہوتا ہے۔ اپنے آبائی گاؤں کے ساتھ یہی بے پناہ محبت ہم نے اپنے والدین سے سیکھی۔ والد گرامی کو علم و ادب کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کے باوجود اپنے گاؤں اور مقامی لوگوں سے غیر معمولی محبت تھی جس کا والہانہ اظہار وہ ہم سے ہمیشہ کرتے رہتے تھے۔

    یہی وجہ ہے کہ انکی بے وقت موت کے بعد بھی ہم نے اپنے گاؤں سے ان کے رومان کو زندہ رکھا۔ مگر ان جذبات کی صحیح معنوں میں آبیاری ہماری والدہ محترمہ نے کی جنہوں نے تادم حیات گاؤں اور مقامی لوگوں سے اپنی سچی اور بے لوث محبتوں کو خوب نبھایا۔ 1990 کی دہائی میں ہم پڑھائی کیلئے لاہور جا پہنچے، پھر سول سروس کا حصہ بن گئے اور مختلف شہروں میں سرکاری ذمہ داریوں کے سبب وقتی طور پر گاؤں سے دور بھی ہو گئے مگر ماں جی کا دل ہمہ وقت گاؤں میں دھڑکتا تھا۔ وہ لاہور، اسلام آباد، گجرات اور فیصل آباد سمیت مختلف مقامات پر ہم میں سے کسی ایک بھائی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی سارا دن گاؤں والوں کے ساتھ فون پر محو گفتگو رہتیں اور وہاں گنتی کے دن گزارنے کے بعد گاؤں لوٹ جاتیں۔ وہ ہمیشہ ہمیں اپنے آبائی علاقے میں لوگوں کے دکھ سکھ میں شامل ہونے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ آنے سے قبل جب تک میں پاکستان میں تھا تو لگ بھگ دو دہائیاں بلا تعطل میں ہر ویک اینڈ اپنے آبائی گاؤں میں گزارتا تھا۔

    ماں جی مجھے مسلسل علاقہ بھر سے آنے والے شادی کارڈز اور ہونے والی اموات کے متعلق مطلع کرتی رہتیں۔ وہ واٹس ایپ کا استعمال مجھ سے زیادہ موثر انداز میں کیا کرتیں اور میرے ویک اینڈ کا پورا پروگرام ترتیب دیتیں۔ کس شادی پر جانا ضروری اور کہاں تعزیت کے لئے لازمی پہنچنا تھا، یہ سب ان کے احکامات کے مطابق طے پاتا۔ حتیٰ کہ میرے آنے اور جانے والے راستوں کا تعین بھی کر دیتیں کہ کس راستہ کے زیادہ مقامات پر میری حاضری ضروری تھی۔ وہی راستے میری منزل بن جاتے۔ پھر بات یہاں ختم نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ میرے ساتھ موجود ڈرائیور کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے بھی میری لوکیشن معلوم کرتی رہتیں جہاں جہاں میرا پروگرام طے شدہ ہوتا تھا۔

    واپسی کے لئے شام سے پہلے مجھے لوٹنے کا حکم ملتا تاکہ میں رات کے اندھیرے سے قبل گھر پہنچ جاؤں۔ گاؤں سے واپس جاتے ہوئے کئی بار مجھے اور ڈرائیور کو فون کرکے میری پوزیشن دریافت کرتی رہتیں اور آخری کال میری شریکِ حیات کو ہوتی کہ جب میں گھر پہنچ جاؤں تو وہ فوراً ماں جی کو مطلع کردے۔ جب کبھی شام کے وقت ڈیرے پر موجود لوگوں کے معاملات نپٹاتے دیر ہو جاتی تو وہ رات کے اندھیرے میں سفر اختیار کرنے سے روک دیتیں۔ میں رات کا کھانا ان کے ساتھ کھاتا، گپ شپ لگتی اور سارے دن کی کارگذاری ان کے سامنے پیش کر تا تو وہ بہت خوش ہوتیں۔

    یہ ہر ہفتے کا معمول تھا۔ وہ میرے علاوہ یہی تاکید اور توجہ دوسرے بیٹوں پر بھی مرکوز رکھتی تھیں اور ان کے ساتھ مسلسل رابطہ بھی۔ اس کے علاوہ ہمارے فیملی کے واٹس ایپ گروپ میں سارا دن اپنے پوتے اور پوتیوں کے ساتھ بھی وہ اپنے وائس نوٹس کے ذریعے مصروف رہا کرتیں۔ جب کبھی مجھے بیرون ملک سفر اختیار کرنا ہوتا تو گھر سے روانگی سے لیکر ایئرپورٹ پر پہنچنے اور جہاز کے اڑان بھرنے تک مسلسل فون کرکے مجھ سے رابطے میں رہتیں۔ پاکستان میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے لیکر گھر پہنچنے تک وہ جانے کتنی مرتبہ یہ معلوم کرتیں کہ گاڑی کہاں پہنچ چکی ہے اور کیا راستے میں ٹریفک زیادہ تو نہیں جس کے باعث تاخیر ہو رہی تھی۔ ماں جی کے انتظار میں اضطراب کے باعث وہ چند ساعتیں بھی انہیں برسوں پر محیط لگنے لگتیں۔

    ان کے جانے سے گویا سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ وہ نہیں تو وہ منتظر نگاہیں بھی نہیں رہیں اور نہ ہی کسی کے انتظار میں وہ شدت اضطراب باقی ہے۔ اب کی بار گزشتہ ماہ پاکستان میں لگ بھگ میں تین ہفتوں تک قیام پذیر رہا، کئی شہروں کا سفر اختیار کیا، دن رات گاڑی چلتی رہی اور میں حالت سفر میں رہا۔ مگر اب کوئی وائس نوٹ نہیں آیا، نہ کسی نے رات کے اندھیرے میں سفر اختیار کرنے سے روکا اور نہ ہی کسی نے اپنے شیریں لہجے میں سفر کے آغاز کے وقت میری خیریت و سلامتی کی دعائیں مانگ کر رخصت کیا۔ اب کی بار ماں جی کے بغیر پہلی مرتبہ گاؤں والا گھر مجھے مکان دکھائی دیا۔

    میں سارے گھر کے تمام کمروں میں ماں جی کی موجودگی کو محسوس کرتا رہا۔ کئی بار مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ وہیں کہیں تھیں مگر وہ وہاں نہیں تھیں کیونکہ ان سے ملنے گاؤں کے آبائی قبرستان میں جانا پڑا جہاں ہم خود انہیں سپرد خاک کر آئے تھے۔ وہ جنہیں ایئرپورٹ سے گھر تک کے چند کلومیٹر کا فاصلہ بہت طویل دکھائی دیتا تھا اب کئی مہینوں کے بعد قبرستان میں میری حاضری پر کوئی شکوہ نہیں کیا۔

    اس مختصر اور مصروفیات سے لبریز قیام کے باوجود تین چار مرتبہ گاؤں جاکر کچھ وقت گزارنے کا مقصد قبرستان میں ماں جی کی آخری آرام گاہ پر حاضری ہی تھا۔ مگر ان ملاقاتوں سے میرے قلب و روح میں چھائے اداسیوں کے دل گرفتہ سائے مزید دراز ہوتے نظر آئے۔ ہاں مگر ماں جی کی یادوں اور دعاؤں کے ان گنت چراغ ہیں جو ہمہ وقت میری راہوں کو روشن کئے ہوئے ہیں اور جن کی لو میں میرا سفر زیست جاری ہے۔