پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی نائب صدر سینیٹر مشاہد اللہ خان بھی دار فانی سے دار بقا کوچ کر گئے۔ وہ ایسے مشکل وقت میں رخصت ہوئے جب پاکستان کی جمہوری قوتوں کو ان جیسے نڈر، بہادر اور بے باک سیاستدان کی اشد ضرورت تھی۔ کئی روز گزر گئے لیکن ابھی تک ان کی موت کا یقین نہیں ہورہا۔
مشاہد اللہ خان پاکستانی سیاست کا وہ اجلا کردار اور نکھرا باب تھا جسے جہاں سے کھولو وہاں سے وفاؤں کی خوشبو آئے گی۔ وہ ایک سچے اور کھرے سیاستدان تھے، جس میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی سیاسی جدوجہد اسلام، پاکستان، دو قومی نظریے اور جمہوریت کی خوشبو سے معطر ہے۔
ہمارے وہ سیاستدان جو حالات کی سختیوں سے بچنے کے لیے مصلحتوں کی زنجیریں پہنتے دیر نہیں لگاتے، ہلکی سی ہوا سے جن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں ایسے ناپائیدار سیاستدانوں کے لیے مشاہد اللہ خان کا کردار مشعل راہ ہی نہیں حوصلے کا باعث بھی ہے۔
آج کے ایک کالم میں ہم اس مرد مجاہد کا ہی تذکرہ کریں گے کہ وہ کہاں سے چلا اور کہاں پہنچا۔ مشاہد اللہ خان کی پیدائش 1953 میں پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ہوئی، ان کا تعلق پنڈی کی مڈل کلاس فیملی سے تھا، اسکول کے بعد کالج تک کی تعلیم بھی پنڈی ہی کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ انھوں نے کالج دور میں اسلامی جمعیت طلبہ جوائن کی اور اسی طلبہ تنظیم سے اپنی سیاست کا آغا کیا اور طلبہ سیاست میں اپنا لوہا منوایا۔ حصول تعلیم کے بعد انھوں نے 1975میں پاکستان ایئرلائینز میں باقاعدہ ملازمت اختیار کر لی، ان کی تقرری اس وقت کے پی آئی اے چیئرمین ایئرمارشل(ر) نور خان نے کی تھی۔
ان کے اندر موجود سیاست کے لگاؤ نے انھیں یہاں بھی آرام سے نہ بیٹھنے دیا اور اس ادارے کی ٹریڈ پالیٹکس میں کھینچ لایا۔ مشاہد اللہ خان نے پی آئی اے ایمپلائز یونین (پیاسی) سے باقاعدہ مزدور تحریک کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اہم لیڈر بن گئے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک اسی سی بی اے یونین کا حصہ رہے۔ انھوں نے جس طرح پی آئی اے کے ورکر کے حقوق کا تحفظ کیا ان کے اسی جذبے اور جدوجہد نے انھیں قومی سطح کا ٹریڈ یونین لیڈر بنا دیا۔ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کے محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، اسی لیے خیبر سے لے کر کراچی تک محنت کش طبقے نے ہمیشہ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا اور ان پر اعتماد کیا۔
ملازمت سے فراغت کے باوجود مشاہد اللہ خان ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر سرگرم رہے، 1993 میں جب پہلی مرتبہ میاں نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا اس وقت مشاہد اللہ خان ان کے قریب ہوئے اور باقاعدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جوائن کرلی۔ مسلم لیگ (ن) میں آتے ہی انھوں نے پیاسی کو خیرباد کہہ دیا اور پی آئی اے میں ایئرلیگ کو منظم کیا، پاکستان مسلم لیگ (ن) جب دوسری بار اقتدار میں آئی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو انھوں نے مشاہد اللہ خان کو مشیر محنت کے طور پر حکومت کا حصہ بنا لیا، یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد انھوں نے ملک بھر کے محنت کشوں کو ان کا حق دلانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
اسی دور میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اس بااعتماد ساتھی کو شہر قائد کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا، 12اکتوبر1999 کو جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو انھوں نے آتے ہی مشاہد اللہ خان کو بھی ہٹا دیا۔
بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل وقت تھا ان کی قیادت کو پابند سلاسل کردیا گیا تھا جو بچے تھے انھوں نے گوشہ نشینی میں ہی عافیت جانی، ایسے مشکل ترین حالات میں لیگی رہنماؤں میں سے سب سے پہلے مشاہد اللہ خان مشرف مارشل لاء کے خلاف نکلے انھوں نے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف ناصرف کراچی پریس کلب میں دھواں دھار پریس کانفرنس کی بلکہ چند ساتھیوں سمیت مظاہرہ بھی کیا جس کی پاداش میں پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا، انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کے کپڑے تک پھاڑ دیے گئے اور انھیں قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ ان کے اس جذبے اور قربانی نے انھیں اپنے قائد میاں نواز شریف کے بہت قریب لاکر کھڑا کردیا، اسی قربت کا نتیجہ تھا کہ میاں نواز شریف نے انھیں پہلے مرکزی کوآرڈینیٹر بنایا، پھر مرکزی سیکریٹری اطلاعات کا چارج انھیں سونپ دیا گیا۔
مشاہد اللہ خان نے اپنی ان تھک محنت اور جانفشانی سے اپنی قیادت کا اعتماد جیت لیا۔ ان کا شمار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ان رہنماؤں میں ہونے لگا جواپنی پارٹی کی شناخت بن چکے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہی ان کی جماعت کا بیانیہ بن جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی جماعت اور جمہوریت کے لیے جو خدمات پیش کیں انھیں دیکھ کر میاں نواز شریف نے انھیں مرکزی نائب صدر بنا دیا تھا اور 17فروری 2021 کو آخری سانس تک وہ اسی عہدے پر موجود رہے۔ پارٹی نے اپنے اس مخلص لیڈر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا اور وہ مسلسل بارہ سال تک سینیٹر رہے۔
جب 2013 کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو اپنے اس ساتھی کو کابینہ میں شامل کرلیا، انھیں ماحولیاتی تبدیلی کا قلمدان سونپا گیا۔ 2015 میں جب مشاہد اللہ خان مالدیپ کے دورے پر تھے وہاں انھوں نے متنازع بیان دیا جس پر ان سے استعفیٰ طلب کرلیاگیا، انھوں نے پارٹی قیادت کے فیصلے کے آگے سرتسلیم ختم کردیا اور استعفیٰ میاں نواز شریف کو پیش کردیا، تاہم چند ماہ بعد انھیں دوبارہ وفاقی وزیر بنادیا گیا۔
سینیٹرمشاہداللہ خان ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے مخالف رہے اور ان مہروں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے جو اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ وہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار بڑے جرأت مندانہ انداز میں کرتے تھے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والے مشاہد اللہ خان ایسے سیاستدان تھے جو گراس روٹ لیول سے اوپر آئے تھے کوئی پیرا شوٹر نہیں تھے، وہ کارزار سیاست کے پیچ و خم اور نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف تھے۔
وسیع مطالعہ اور شاعری سے والہانہ لگاؤ ان کی تقاریر میں جھلکتا تھا، خوبصورت اور منتخب اشعار جہاں ان کی تقاریر کو چار چاند لگاتے تھے وہاں مخالفین پر گولے بن کر برستے تھے، وہ نہایت حاضر جواب اور مخصوص انداز میں اپنے مخالفین پر تنقید کرتے اور مخالف کیمپ کی گرجتی برستی توپوں کے منہ بند کرادیتے۔
مشاہد اللہ خان صرف مسلم لیگ (ن) ہی کا اثاثہ نہیں تھے بلکہ اس ملک کی تمام جمہوریت پسند قوتوں کا اثاثہ تھے، جس سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے ان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ اللہ کریم اس مرد قلندرکی کامل بخشش فرمائے اور اسے اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)