جامعہ فاروقیہ کراچی کے صحن میں دو قبریں موجود ہیں، ایک قبر یادگارِاسلاف، استاذ العلماء، رئیس المحدیثن حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے اور دوسری قبر اْن کے فرزند ارجمند، شہید ناموسِ صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان کی ہے، یہ محض دو شخصیات کی قبریں نہیں بلکہ ایک صدی کی تاریخ ہے۔
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی زندگی کی97 بہاریں دیکھیں اور ایک ایک لمحہ اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کیا۔ درس و تدریس کے میدان میں ان کی خدمات ملت اسلامیہ کا سرمایہ ہے، ملک و بیرون ملک ہزاروں علماء کرام ایسے ہیں جنہوں نے حضرت اقدس سے فیض حاصل کیا اور آج دنیا کے گوشے گوشے کو علوم نبوت کے کرنوں سے منور کر رہے ہیں، دلوں سے زنگ اتار رہے ہیں اور بجھے چہروں کو اسلام کی تعلیمات سے منور کر رہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی نشانی ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر عادل خان تھے جو حضرت اقدس کے بیٹے ہی نہیں ہونہار شاگرد بھی تھے۔
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں اس مرد قلندر کو شہید کر دیا گیا، ان کے بہیمانہ قتل کی خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اسلام سے محبت رکھنے والی ہر آنکھ اس عالم با عمل کی شہادت پر نمناک تھی۔ ڈاکٹر عادل خان شہید بے ضرر انسان، علم و دلیل کے خوگر، مکالہ کے مناد، دین مبین کے داعی، شائستہ اطوار، انتہائی قابل و ذہین اور صاحب بصیرت عالم دین تھے۔
انھوں نے تمام عمر اسلام کی خدمت میں گزاری اور دین اسلام ترویج و اشاعت کا فریضہ جانفشانی سے ادا کیا، ان کی زبان تو ہمیشہ قال اللہ و قال رسول کے نغموں سے معطر رہتی تھی، وہ ملک و ملت کے خیر خواہ اور سچے ہمدرد تھے۔ پاک سرزمین سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے جدوجہد ان کی زندگی کا مشن تھا جس پر انھوں نے خاصا کام بھی کیا، اس راہ میں وہ خود فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
ڈاکٹر عادل خان نے جامعہ فاروقیہ کراچی سے1973 میں علوم شرعیہ کی سند حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے ہیومن سائنس، 1978 میں ایم اے عربی اور 1992میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی، 1980 (اردو انگلش اور عربی) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے ایڈیٹر بنے اور شہادت تک اس ذمے داری کو نبھاتے رہے۔
تحریک سواد اعظم میں اپنے والد شیخ الحدیث مولانا سلیم اللّٰہ خان رحمۃ اللہ کے شانہ بشانہ رہے، 1986سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکریٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کی، پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے، جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا۔ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان نے ملائیشیا کوالالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010سے 2018 تک معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ انھیں 2018 میں ریسرچ و تصنیف و تحقیق میں ملائیشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملائیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات، نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہے۔ انھیں اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو و عربی ادب جیسے موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔
2017 میں اپنے والد مولانا سلیم اللّٰہ خان رحمۃ اللّٰہ کے دار فانی سے دار بقا کوچ کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور اپنے والد محترم کی یادگار جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم و نسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللّٰہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان نے تمام عمر اپنے والد محترم کی طرح اسلام کی خدمت کی اور درس و تدریس کے میدان میں اپنا لوہا منوایا، انھوں نے ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق بلند رکھا، اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف اپنے آمرانہ و جابرانہ جاہ و جلال کے ساتھ "حقوق نسواں " کے نام پر بل منظور کرانا چاہتے تھے، مفتی تقی عثمانی جیسی ہستی پر دباؤ تھا کہ وہ اس بل کی حمایت کریں۔
الحمد للہ وہ بھی ثابت قدم رہے، پارلیمنٹ میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت قاضی حسین احمد مرحوم اور مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں مخالفت میں ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی تو میدان عمل میں اللہ تعالی نے ڈاکٹر عادل خان کا انتخاب کیا، وہ امریکا سے نئے نئے پاکستان آئے تھے، انھوں نے کراچی کے علماء کو جمع کرکے "تحریک تحفظ حدود اللہ"قائم کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جلسے، جلوس مظاہرے شروع ہو گئے، پہیہ جام ہڑتال کی کال دی تو مشرف نے بانی ایم کیو ایم سے مدد مانگ لی۔
اس نے لندن سے حکم بھیجا کہ نائن زیرو آ جائیں جہاں بڑے بڑے حکمران ماتھا ٹیک کر آتے تھے۔ اب مشاورت ہوئی کہ کیا کیا جائے؟ شہید ڈاکٹر عادل خان کا جملہ تھا"شیخ ہمت کرو" چنانچہ ہم بہت بڑا وفد لے کر گئے اور ایک گھنٹے کا ٹیلیفونک خطاب بھی سنا تاہم شہید نے ایک ہی جواب دیا "ہم قرآن کے قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دینگے"۔ آپ اس معاملے میں بحیثیت مسلمان مداخلت نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
جب پاکستان کے مختلف شہروں سے اصحاب و اہل بیت پیغمبر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے ناپاک جسارتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، تو کراچی کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے سر جوڑ لیے اور پر امن احتجاج کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی اور مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیاگیا۔
ان کی سربراہی میں اہلیان کراچی نے دفاع صحابہ و اہل بیت کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء و عوام الناس نے شرکت کی، اس عنوان پر ہونے والا یہ اجتماع ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، لاکھوں افراد اس میں شریک ہوئے اور یہ پیغام دیا کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں مقدس شخصیات کی اہانت کو قطعی طور پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کراچی کا یہ عظیم الشان پروگرام اس سلسلے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا، جس میں ساری دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ اصحاب پیغمبر رضوان اللہ علیہم اجمعین تاریخی شخصیات نہیں بلکہ قرآنی شخصیات تھیں۔
اس لیے نبی پاکﷺ کے تمام صحابہ کرام برحق ہیں، ہر مسلمان کے لیے ان کی اتباع لازم ہے۔ کراچی کے اجتماع کے بعد پورے ملک میں اس عنوان پر بڑے بڑے اجتماعات ہورہے ہیں، فرزندان توحید صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے والہانہ محبت کا اظہار کررہے ہیں، ڈاکٹر عادل خان کو صحابہ و اہل بیت رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اسی محبت کی سزادی گئی اور اسلام و پاکستان دشمن قوتوں نے انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے شہید کردیا۔
علم و دلیل کے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اسی شہر کی سڑکوں پر اس سے پہلے سیکڑوں علماء کرام شہید کیے جاچکے ہیں، کچھ عرصہ قبل شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی جیسی عالمی شخصیت پر بھی اسی طرح کا حملہ کی گیامگر اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ رکھا، تسلسل سے اکابرین ملت کا قتل اور قاتلوں کا قانون کی گرفت سے آسانی سے بچ نکلنا بہت تکلیف دہ اور تشویش ناک ہے۔ جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے اگر اس ملک میں اعتدال پسند علماء کو اسی طرح قتل کیا جاتا رہا تو ریاست اور ریاستی ادارے اپنا اعتماد کھو دیں گے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر عادل خان کی قاتلوں اور ذمے داروں کو فی الفور گرفتار کیا جائے، ان کے قتل میں اگر کوئی ہمسایہ ملک شامل ہے تو قوم کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اس کیس کو نامعلوم افراد کی فہرست میں شامل کرنے سے گریز کیاجائے، اسی سے ریاست پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔