ایک بار پھر اہل مغرب نے اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، ایک بار پھر مسلمانوں کے دل زخمی کردیے گئے، ایک بار پھر مغرب نے اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے قرآن مجید فرقان حمید کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔
ناروے میں اسلاموفوبیا کا شکار عالمی شرپسندوں نے اسلام مخالف ریلی کا انعقاد کیااور اس ریلی میں شامل ایک خاتون نے سر عام قرآن مجید کی بیحرمتی کی اور مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اْس کتاب اﷲ کی بے حرمتی کی گئی جس کے بے شمار پہلوؤں کا اقرار اور اعتراف تو ان بد بختوں کے اپنے بھی کرتے ہیں۔
پوری دنیا میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ جتنی بھی کتابوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ آسمانی یا الہامی ہیں یا جتنی کتابوں نے خود دعویٰ کیا کہ وہ اﷲ رب العزت کے کلام پر مشتمل ہیں، ان میں صرف قرآن مجید ہی وہ کتاب ہے جس کی حقانیت و سالمیت پر آج تک کوئی حرف نہیں رکھا جاسکا۔ باقی کوئی کتاب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے، تورات کی تصدیق قرآن مجید نے کی کہ یہ اﷲ کی کتاب تھی، اﷲ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں ہدایت بھی ہے اور نور بھی۔ لیکن تورات کے ماننے والے خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصل تورات آج دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ یہی حال دیگر آسمانی کتابوں کا ہے۔
گویا قیامت تک آنے والے انسانوں کی قدم قدم پر رہنمائی کے لیے اب قرآن مجید ہی اﷲ کی آخری کتاب ہے جو نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوئی، جس طرح اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آسکتا اسی طرح قیامت تک کوئی اور آسمانی کتاب بھی نازل نہیں ہوسکتی۔
یہ وہ کتاب ہے جو ہدایت اور نور کا سرچشمہ ہے۔ وہ کتاب اﷲ جس میں مسلمانوں کے دنیا میں حکمرانی کے اصول طے کیے گئے، بد قسمتی سے آج ستاون اسلامی ملکوں اور دو ارب مسلمانوں کی عدم توجہ سے غیروں کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے۔ کاش ان ستاون ملکوں میں سے کسی ایک کا آئین اور قانون قرآن ہوتا تو دنیا میں کسی کو ایسی جرات نہ ہوتی، کاش ہم ریلیاں نکالنے کی بجائے ان کی اس حرکت کا جواب ملک پر 73ء کے آئین کی بجائے قرآن نافذ کر کے دیتے۔
اس نازیبا حرکت پر پوری اسلامی دنیا حسب روایت سراپا احتجاج ہے، سب سے تگڑا احتجاج ترکی نے کیا۔ ترک دفتر ِخارجہ نے ناروے میں اس نازیبا حرکت کے خلاف ایک تحریری اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ "ناروے میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی ہم سخت ترین لہجے میں مذمت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم ہمیشہ سے کہتے چلے آئے ہیں، اس طرز کی اشتعال انگیز کاروائیاں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ قانونی مملکتوں اور جموری نظام کو بھی ہدف بناتی ہیں۔
یہ حرکات معاشرے کو کسی وائرس کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں اور ہر کس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں اسلامو فوبیا کا وائرس مغربی معاشرے میں ناصرف پھر ایکٹو ہوگیا ہے بلکہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، اہل مغرب کا نسل پرستی اور اسلام دشمنی کو نظریاتی آزادی کے دائرے میں شامل کرنا ایک انتہائی غلط فعل ہے۔ اس کے سد باب کے لیے اب مزید وقت ضایع کیے بغیر ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ عالمی امن کو بچانے کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید کے خلاف اس قسم کی غیر اخلاقی حرکات، خاص طور پر ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور قوانین کی بالادستی کا واویلا مچانے والے ممالک میں حالیہ دور میں ایسی حرکات سامنے آتی رہتی ہیں جن کے خلاف کارروائی ازحد ضروری ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامو فوبیا کے چیلنج کا مقابلہ اسلام کے صحیح تعارف اور قرآن کی حقیقی تعلیمات سے ہی کیا جاسکتا ہے، جارج بش کا صلیبی جنگ کے لیے لگایا گیا نعرہ ہو یا جہاد کو تشدد سے تعبیر کرنے کی حکمتِ عملی، یا پھر قرآن مجید کے بارے میں غلط فہمیاں، سب کے پسِ پشت ایک ہی مقصد کارفرما ہے کہ اسلام کو ایک جارح مذہب ثابت کرکے اس کی مقبولیت کو روکا جائے۔ حالانکہ اسلام امن، سلامتی، اعتدال اور سہولت کا مذہب ہے، تشدد، بدامنی، انتہا پسندی، شدت اور دہشت گردی سے اسلام کا وہی رشتہ ہے جو روشنی کا اندھیرے سے، نور کا ظلمت سے اور سچائی کا جھوٹ سے ہوتا ہے۔ جہاں تک تاریخی پس منظر کا سوال ہے تو صلیب وہلال یا دوسرے الفاظ میں مغرب اور اسلام کی یہ کشمکش کافی پرانی ہے۔
عروج اسلام کے بعد سے عیسائی دنیا نے مسلمانوں پر کروسیڈ کے نام سے ایک دو نہیں سات صلیبی جنگیں مسلط کیں، جو بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی، کی فتح پر انجام کو پہنچیں، اْس وقت شاہ لوئی نہم نے مسلمانوں سے رہائی حاصل کرنے کے بعد اہل مغرب کونصیحت کی تھی کہ "اگر تم مسلمانوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو تو فوج کشی کے بجائے ان کے عقید ہ پر ضرب لگاؤ تاکہ مسلمانوں کی آیندہ نسلیں پکے ہوئے پھل کی طرح تمہاری جھولی میں گرجائیں "، شاہ فرانس کی اس نصیحت پر یورپ کے حکمرانوں سے زیادہ مستشرقین اور عیسائی مبلغین نے توجہ دی۔
اسلام پر لگائے گئے تمام الزامات ایک ایک کرکے غلط ثابت ہوتے گئے اور ہر دور میں اسلام کی حقانیت کھل کر سامنے آئی جسے دیکھ کر اندھیروں میں بھٹکنے والے روشنی میں آرہے ہیں، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی اس لہر میں جتنی تیزی آئی اتنی ہی رفتار سے غیر مسلم کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے، یہی وہ خوف ہے جو جنونیوں کو شعائر اسلام کی توہین پر مجبور کرتا ہے، لیکن انھیں اس بات علم نہیں کہ اسلام کی حقانیت کا چراغ تمہاری ان کھوکھلی پھونکوں سے بجھنے والا نہیں۔
جاتے جاتے ایک اہم مسئلہ قومی سلامتی کو درپیش اک بڑے چیلنج کا ہے، اسی کی دہائی کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں انسان موت کی آغوش میں جاسوئے، بڑے بڑے علماء و مشائخ اور علمی شخصیات دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، اس وقت مولانا سمیع الحق شہید، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا فضل الرحمان، پروفیسر ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی ایسی قد آور شخصیات ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر سرجوڑ کر بیٹھیں اور ان اکابرین کی شبانہ روز کی کاوشوں کے بعد فرقہ واریت کا بے قابو جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔
الحمدللہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتوں، قومی سلامتی کے اداروں اور علمائے کرام کی محنت کے باعث ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر چلی آرہی ہے، محرم الحرام خیر و عافیت سے گزر رہا ہے، لیکن اس سال محرم شروع ہوتے ہی اک خاص منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر چند شر پسندوں نے جس طرح ملک میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی، اس پر ناصرف تمام مذہبی حلقے بلکہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی پریشان ہیں۔ یہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک گہری سازش ہے، یہ بات خارج از امکان نہیں کہ اس سازش کے پیچھے پاکستان دشمن غیر ملکی قوتیں کارفرما ہیں جو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کی فضا کو تار تار کرکے بد امنی پھیلانا چاہتے ہیں۔
علماء کرام اور عوام الناس نے ذمے دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا لیکن حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ اس سازش میں جو لوگ ملوث ہیں انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے، ان پر دہشت گردی کی دفعات لگا کر خصوصی عدالتوں میں اسپیڈی ٹرائل کیا جائے۔ اس سلسلے کے مستقل سد باب کے لیے لازم ہے کہ تحفظ بنیاد اسلام بل کو فوری طور پر پنجاب میں نافذ کردیا جائے اور ایسی ہی قانون سازی وفاق اور صوبوں میں ہو، تاکہ کوئی شرپسند مقدس شخصیات کی توہین کرنے کی جرات نہ کرسکیں۔