بلوچستان کے ضلع مچھ کے پہاڑوں پر پڑی گیارہ بے گناہوں کی لاشوں نے اس بات کا پتا بتا دیا کہ ہماری حکومت کمزور اور ہمارا دشمن عیار بھی ہے، مکار بھی ہے اور بہت طاقتور بھی۔ حکومت کی اس کمزوری کی وجہ سے پاکستان کے اکیس کروڑ شہری غیر محفوظ ہیں اور سفاک دشمن کے نشانے پر ہیں، کوئی کسی بھی وقت، کہیں بھی دشمن کی سفاکیت کا شکار بن سکتاہے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے یہ 11افراد روٹی روزی کی تلاش میں نکلے تھے، ان کے اہل خانہ اور بچے اس انتظار میں تھے کہ ہمارے گھر کے کفیل محنت مزدوری کرکے چند سو روپے لے کر شام کو لوٹیں گے، تو چولہا جلے گا اور کھانا بنے گا لیکن کسے معلوم تھا کہ ان کے پیاروں کو تو ذبح کر دیا گیا ہے، شام کو ان کے گھر چولہا نہیں جلے گا کیونکہ جس گھر میں لاشہ پڑا ہو وہاں چولہا نہیں جلتا۔ خوشیوں بھرے گھر لمحوں میں ماتم کدہ بن گئے۔
کوئٹہ کی وادی کو آہوں اور سسکیوں نے آن گھیرا، اور اہل خانہ اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر انصاف مانگنے کے لیے اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر کوئٹہ کی سڑکوں پر بیٹھ گئے۔ دہشت گردی کی اس بھیانک واردات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شدید سردی میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک وزیر اعظم عمران خان خود چل کر ان کے پاس نہ آئیں اور انھیں انصاف دلانے کا وعدہ نہ کرلیں تب تک اپنے پیاروں کی تدفین نہیں کریں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کئی روز گزر گئے، کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والا احتجاج کراچی، لاہور، پشاور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پھیل چکا تھا۔ اس احتجاج کا حساس ترین پہلو تو یہی تھا کہ مظاہرین نے دہشت گردی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی میتوں کو ابھی تک سپرد خاک نہیں کیا تھا۔ ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے ظلم کا یہ کوئی پہلا واقعے نہیں تھا اس سے پہلے ایسے ہی متعدد واقعات ہوچکے تھے جن میں مجموعی طور پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کم و بیش دو ہزار کے قریب لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اس لیے مچھ میں گیارہ افراد کے قتل کے بعد ہزارہ برادری اس بات پر زور دے رہی تھی کہ وزیر اعظم خود آئیں اور ہم پر ہونے والے ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اسی لیے مظاہرین کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کی کوئٹہ آمد اور ہزارہ برادری کے نمائندوں سے ملاقات تک سانحہ مچھ کے شہداء کی تدفین نہ کرنے کا اعلان کردیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے بھی اس بات کی ضد رہی کہ پہلے مقتولین کی تدفین کی جائے اس کے بعد وزیر اعظم کوئٹہ جائیں گے، بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ لواحقین کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے، جن بیچاروں کا سب کچھ اجڑ چکا تھا وہ کیا کسی کو بلیک میل کرسکتا ہے۔
اس قسم کی بیان بازی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کھلاڑی، کھلاڑی نہیں بلکہ اناڑی ہیں، انھیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہوسکا کہ ہم کس سے اور کس نوعیت کی ضد لگا رہے ہیں اور کیا بات کررہے ہیں لیکن اس ضد میں مظلوم ہار گئے اور حکومت جیت گئی۔
آئیے ایک بار پھر ریاست مدینہ کی سیر کو چلتے ہیں، جہاں حاکم وقت امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ پر اللہ کا خوف اس قدر طاری رہتا کہ وہ اپنی رعایا کی خبر گیری کے لیے خود راتوں کو گشت کیا کرتے، کسی شہری کا ناحق قتل تو دور کی بات وہ اس بات سے خوفزدہ رہتے کہ کہیں میری رعایا میں کوئی بھوکا نہ سو جائے، انسان تو انسان، ریاست مدینہ میں تو جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا تھا، اسی لیے مراد رسول، امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو میں عمر ؓ قیامت کے روز اس کا بھی جوابدہ ہوں گا۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ یہ تھی ریاست مدینہ۔ 2018کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد جس شد ومد سے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ لگایا، اس نعرے کو سن کر اسلام پسندوں کے دل پگھلے، ان کے لیے ہمدردی جاگی لیکن پہلے روز سے آج تک خان صاحب کی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس میں ریاست مدینہ کی جھلک نظر آجائے، گزشتہ اڑھائی سال کے دوران سیکڑوں ایسے کام گنوائے جاسکتے ہیں جو ریاست مدینہ کے اصولوں کے خلاف ہیں۔
گیارہ لوگ دن دیہاڑے بہیمانہ طریقے سے قتل کردیے جائیں، لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر سات روز تک منفی درجہ حرارت میں کوئٹہ کی سڑکوں پر بیٹھے رہیں اور حاکم وقت ضد لگا لے کہ میں نہیں جاؤں گا، یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس واقعے سے زیادہ حکومت کے رویے نے لوگوں کے دل دکھائے، جس کا کوئی مداوا نہیں۔
دوسری بات یہ کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے دہشت گردی کے کئی واقعات ایک تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں، حکومت بیچاری تو اپوزیشن کے احتجاج سے ہاتھ پاؤں پھلائے بیٹھی ہے اور ریاستی اداروں کو اپوزیشن رہنماؤں کی مانیٹرنگ پر لگا رکھا ہے، ایسے میں دشمن کو کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے تو کیا ملے؟ اس قدر غیر سنجیدہ رویے کی مثال ماضی میں کسی حکومت کی جانب سے نہیں ملتی، ایسی صورتحال میں ملک کے مقتدر ادارے سرجوڑ کر بیٹھیں، سیاسی و عسکری قیادت اور پارلیمان کے اندر و باہر کی جمہوری قوتوں کو انگیج کیا جائے۔
ان کے ساتھ تفصیلی مشاورت کا عمل شروع کیا جائے کہ دہشت گردی و شرانگیزی کے ناسور سے مستقل بنیادوں پر کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ جب حکومت خاص طور پر وزیراعظم کھلے عام پاکستان میں ہونے والی ہر شرارت کا ذمے دار بھارت کو قرار دے رہے ہیں تو اس پہلو پر بھی پوری سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور تخریب کاری کے طوفان کی پشت پناہی کرنے والے کھلے دشمن کی سازشوں کو منہ توڑ ناکامی سے کیسے دو چار کیا جاسکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان داخلی میدان میں سنگین مسائل کا شکار ہے۔ دہشت گردی، فرقہ واریت، عدم برداشت کے ماحول کو بڑھکانے کی کوششیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اورسیکیورٹی فورسز پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایسے خطرناک گروہوں کو گرفتار کر چکے ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ افغان حکومت کی انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ہمسایہ ملک کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں امن دشمن عناصر کی بڑی تعداد علاقائی بدامنی کے لیے متحرک ہے۔ پاکستان ان شرپسندوں کا سب سے بڑا نشانہ ہے اور موقع ملنے پر وہ واردات سے باز نہیں آتے۔ ان سازشوں کے خلاف تنہا حکومت کچھ نہیں کرسکتی، پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لیے ملک کی تمام محب وطن قوتوں کا ایک پیج پر جمع ہونا ناگزیر ہے، لیکن اس کے لیے اپوزیشن کو قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہ کام ملک کی مقتدر قوتیں ہی سر انجام دے سکتی ہیں۔
آخری بات یہ کہ تاریخی حوالوں سے یہ بات درست ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ افغانستان سے ہجرت کرکے آئے اور بلوچستان میں آباد ہوگئے، اور شاید مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے جس سے ہزارہ برادری کے لیے مقامی قبائل کے جذبات میں بھی فرق آگیا۔
تاہم جب کبھی کوئی ناخوشگوار واقعے ہوتا تو فریقین اپنے طور پر اسے حل کرنے کے راستے بھی تلاش کرلیتے تھے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے پورے ملک میں جس طریقے سے بربریت کا بازارِ گرم ہے اس میں ہزارہ برادری کو بھی ایک منظم انداز میں ٹارگٹ کیا گیا اور ان کے لوگوں کا بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا اور اس میں بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسے فرقہ واریت کا رنگ دینا چاہیے لیکن ان واقعات کو جس طریقے سے فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی اس بارے میں بھی مکمل تحقیقات کا ہونا از حد ضروری ہے۔ اس لیے وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو ان تمام واقعات کی تحقیقات کرے، تمام پہلوؤں کا جائزہ لے اور مسئلے کی جڑ تک پہنچے۔
تحقیقاتی ٹیم کو ایک ٹائم فریم دیا جائے جس میں وہ اپنی رپورٹ پیش کرے اور اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے، اگر ان واقعات میں بیرونی عناصر کے ساتھ ساتھ ملکی عناصر بھی کارفرما ہیں تو ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے اور اگر ان واقعات کو جان بوجھ کر فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے تو ایسا کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے جو ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں بسنے والے سب کے سب لوگ اس ملک کے اسٹیک ہولڈر ہیں، کسی کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی کسی کا ظلم برداشت ہونا چاہیے، ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے جس کے لیے سب بچے ایک جیسے ہوتے ہیں اس لیے ریاست کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ یہاں کوئی ایسا مظلوم نہ ہو جو یہ کہتا پھرے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے