Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Molana Ki Unchi Uraan

Molana Ki Unchi Uraan

عرب کے معروف محدث اور مورخ امام شمس الدین ذہبیؒ کے قول کے مطابق خداکی سنت ہے کہ جس نے علماء کوبنظرِحقارت دیکھا، خود حقیر ہو گیا۔ جب سے میں نے امام ذہبیؒ کے اس قول کو پڑھا ہے، ورطہ حیرت میں ڈوبا سوچ رہا ہوں کہ اﷲ اپنے نیک بندوں کی زبان سے کیسے کیسے سچے قول نکلوا دیتے ہیں۔

امام ذہبیؒ نے یہ قول تیرہویں صدی میں کہا اور اس کی حقانیت آج بھی روز روشن کی طرح عیاں نظر آرہی ہے، کیونکہ ہم نے ابھی تازہ تازہ اس قول کی صداقت کو دیکھا ہے۔ نادیدہ قوتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو بنظر حقارت دیکھا لیکن اس کھیل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنے والے خود حقیر ہوکر رہ گئے۔

مولانا فضل الرحمٰن معمولی عالم دین نہیں ہیں، وہ پاکستان میں لاکھوں علماء و مشائخ، خطباء و آئمہ، اساتذہ و طلباء کے امام ہیں، پاکستان کی دینی قوتوں کے پشتیبان ہیں، مظلوم طبقات کی توانا آواز ہیں، انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں کا جو جال بنا گیا تھا، وہ اب تار تار ہوتا نظر آرہا ہے، ان پر کیچڑ اچھالنے کے لیے جن مہروں کو استعمال کیا گیا تھا وہ بری طرح پٹ چکے ہیں۔

مولانا شیرانی صاحب جمعیت یا مولانا کی سیاسی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ مولانا گل نصیب خان نے اپنے خاندان اور دوستوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کی پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ وہ دوستوں کے سمجھانے سے سمجھ گئے اور خاموش رہے، حافظ حسین احمد بھی بظاہر مولانا شیرانی کے ساتھ نہیں ہیں، یوں مولانا شیرانی ہی اس "کارواں " کے اکلوتے راہی نظر آرہے ہیں، وہ بھی تھکے تھکے سے لگتے ہیں۔ مخالفین نے اس عمل کو جمعیت کی ٹوٹ پھوٹ قرار دیا لیکن مولانا نے اسے کانٹ چھانٹ کہہ کر اپنی جماعت کے استحکام کا نام دیا۔ کیوں نہ دیں؟ اب مولانا اونچی اڑان بھر چکے ہیں۔

جے یو آئی(ف)کے خلاف منظم مہم کے شعلوں میں ابھی چنگاری باقی ہے، مخالفین کی پوری کوشش ہے کہ اس چنگاری کو ہوا دے کر مزید آگ بڑھکانے کی کوشش کی جائے، اس مقصد کے لیے ایندھن حکمران جماعت کے کارکن بن رہے ہیں، جو سوشل میڈیا پر مولانا کے خلاف اسی لب و لہجے میں بات کرتے نظر آتے ہیں جو انھیں بڑی محنت کرکے سکھایا گیا ہے۔

میں جو آرٹیکلز لکھ رہا ہوں، وہ بھی ہضم نہیں ہورہے، میں قطعاً نہیں چاہتا کہ میرے کالم وہ ہضم کرنے کی کوشش کریں، ہر انسان کی اپنی سوچ اور فکر ہوتی ہے، کسی کو مجھ سے اختلاف ہوسکتا ہے، مجھے کسی سے ہوسکتا ہے، اختلاف کو دینِ رحمت نے باعث رحمت قرار دیا ہے اور پڑھے لکھے لوگوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے راہیں تلاش کرنے کا اسلوب سکھایا ہے لیکن جہاں جواب میں دلیل کے بجائے قابل اعتراض گفتگو ہو، وہاں سے خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔

گزشتہ دنوں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے وٹس ایپ میسیج بھیجا جو اسی لب و لہجے سے لبریز تھا جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے، وہ میسج اس قابل بھی نہیں جسے شیئر کیا جا سکے البتہ اس کا لب لباب یہ تھا کہ مولانا شیرانی اینڈ کمپنی کو کیوں نکالا؟ میں نے اس میسج کا جو جواب دیا۔ وہ قارئین کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔

میرا جواب ملاحظہ کریں

محترم… بھائی السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ

آپ کا میسج دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگاناقطعی مشکل نہیں کہ یہ تحریر آپ کی نہیں، آپ کو کہیں سے مل گئی ہے اورآپ نے اسے پڑھے بغیر مجھے بھیج دی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ایسی تعصب سے لبریزتحریر آپ نے کسی اور کو نہ بھیجی ہو۔ کوئی ذمے دار شہری اس قدر حساس موضوع پر بنا تصدیق ایسی تحریر آگے نہیں بھیج سکتا۔ آپ نے جو اعتراض اٹھایا، وہ بے بنیاد ہے، شیخ الاسلام مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے اکابرین میں سے ہیں اور جمعیت کے رکن اور مولانا فضل الرحمن ان کے سیاسی رہبر اور امیر ہیں۔

میرے علم کے مطابق ان کے بارے میں جمعیت کے کسی کارکن نے یا مولانا نے نہ کبھی بدگمانی کی اور نہ ایسا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں جمعیت کے مزاج کے برعکس ہیں۔ اس کے باوجود اگر آپکے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے تو مجھ سے ضرورشیئرکریں۔ مولانا طارق جمیل بے شک ایک عالم دین اور اسلام کے داعی و مبلغ ہیں مگر ان کا کبھی بھی جمعیت سے کوئی سیاسی تعلق نہیں رہا۔ جہاں تک مولانا شیرانی کی بات ہے۔

وہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے ابتدائی اراکین میں سے ہیں مگر جب سے میں جانتا ہوں ان کا محبوب مشغلہ "جمعیت کے اندر جمعیت" بنانا تھا، ان کی صوبائی امارت کے دوران جمعیت کے اکابرین اور بنیادی ارکان نے بلوچستان میں نظریاتی گروپ بنالیا مگر مولانا فضل الرحمن نے شیرانی صاحب کا ساتھ دیا کیونکہ آئین اور دستور کی خلاف ورزی دوسرے گروپ نے کی تھی (شیرانی صاحب کی امارت کو نہیں مان رہے تھے)۔ اس وقت نظریاتی گروپ ختم اور اس گروپ کے سارے اکابرین اب جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا حصہ ہیں۔

مولانا شیرانی کافی عرصہ سے ہر پارٹی پروگراموں میں مولانا فضل الرحمن کے مدمقابل رہے۔ میں خود اس بات کا شاہد ہوں لیکن مولانا نے ادب و احترام کا دامن تھامے رکھا۔ لیکن جب میڈیا کے سامنے انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بات کی۔ (اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا جمعیت کے منشور اور دستور کی چند بنیادی شقوں میں سے ایک شق ہے)، انھوں نے جے یو آئی کی سب سے بڑی مخالف جماعت اور اس کے سربراہ کے حق میں بیان دیا۔

ظاہری طور پر تو یہ بغاوت تھی مگر حقیقت میں انھوں نے پارٹی چھوڑ دی کیونکہ جو پارٹی کے امیر اور دستور کو نہیں مانتا وہ کیسے پارٹی میں رہ سکتا ہے؟ حافظ حسین احمد، گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک جمعیت کے ناصرف اکابرین میں سے ہیں بلکہ جمعیت کے بنیادی اراکین میں سے ہیں، ان تینوں شخصیات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی مگر پارٹی پالیسی سے میڈیا کے سامنے اختلاف اور انحراف کیا، اگر یہ تینوں حضرات پارٹی فورم پر اس سے چار قدم آگے بھی بڑھ جاتے تو کبھی نہیں نکالے جاتے۔

حکمران جماعت کے وہ لوگ جو جمعیت کے ان چار لوگوں کو نکالنے پر سخت پریشان ہیں، انھیں آئینہ دیکھنا چاہیے، کیونکہ ان کے سربراہ نے پارٹی کے اندر اختلاف کرنے والے بنیادی اراکین کو کیسے چن چن کر نکالا، آج جمعیت سے نکالے گئے لوگوں پر ٹسوے بہانے والے حکمران جماعت کے ترجمان کاش تھوڑی سی آواز اپنی جماعت سے ان بنیادی اراکین کو نکالنے پر بھی اٹھا لیتے، وہاں تو ان کی زبانوں کو لقوہ مار گیا تھا۔ اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان گیارہ جماعتی الائنس کا حصہ ہے، اس الائنس میں مسلم لیگ ن بھی ہے، پیپلز پارٹی بھی، اے این پی بھی ہے پشتونخواملی عوامی پارٹی بھی، ہر جماعت کا اپنا منشور اور نظریہ ہے لیکن سب جمہوریت کی حقیقی بحالی کے لیے متحد ہوکر مولانا کی قیادت میں میدان عمل میں ہیں۔

نہ جمعیت اور نہ مولانا صاحب کسی کو ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ دے سکتے ہیں اورنہ بے ایمانی کا۔ اگر عمران خان کے پاس کسی کی کرپشن کے ٹھوس شواہد ہیں تو باتیں کرنے کے بجائے عدالتوں میں ثابت کرکے سزائیں دلوائیں، لیکن اڑھائی سال میں تو کسی کے خلاف ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ حکمران انتقامی سیاست چھوڑ کر قوم سے کیے وعدے پورے کریں۔ عجب حکومت ہے جب کارکردگی پر سوال پوچھا گیا تووزیر اعظم صاحب نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ ہماری تو تیاری نہیں تھی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کو ایسے حکمران دے جو "خدا کی زمین پر خدا کے نظام" کو نافذ کریں۔

(آمین ثمہ آمین یا رب العالمین)