شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط 14سو سال پہلے طے ہو چکے، اب کوئی ایڑیاں رگڑے یا الٹا لٹک جائے، قیامت تک ان اصولوں کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کرسکتی، سائنس کی کوئی پیش گوئی، کوئی کلیہ، کوئی ایجاد شریعت کے اصول پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
چاند سے متعلق احکامِ شریعت کے حوالے سے چند مسلمہ اصول و ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، شریعتِ اسلام نے جن معاملات کا مدار چاند ہونے پر رکھا ہے، اْس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں بلکہ اْس کا قابلِ رویت ہونا اور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔
چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک و شبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے چاند ہونا کس کو قرار دیا اور نہ ہونا کس کو کہا، آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی کو مد نظر رکھا جائے۔
حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعد دوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی صحیح بخاری میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے " روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)"۔
اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں " مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کا ہے، اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو"۔ یہ دونوں حدیثیں دوسری سب مستند حدیث کی کتابوں میں بھی موجود ہیں، جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔
ان احادیث کی روشنی میں چاند کا آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے ناکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی پیش گوئی پر اکتفا کرکے رمضان اور عید کا اعلان کردیا جائے۔
اسی مقصد کے پیش نظر ریاست پاکستان نے تمام مکاتب فکر کے جید علماء پر مشتمل مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کی ہے، صوبوں میں اسی کے ماتحت زونل کمیٹیاں اور ضلع سطح پر بھی علماء کی کمیٹیاں موجود ہوتی ہیں جو ملک کے کسی بھی کونے سے چاند نظر آنے کی شہادتوں کا جائزہ لے کر رویت ہلال کا اعلان کرتی ہے۔
بدقسمتی سے رویت ہلال کے معاملے پر ہمارے ہاں ہر سال ایک تنازع کھڑا کردیا جاتا جس کی آڑ میں مذہب اور اہل مذہب خاص طور پر علماء کی توہین و اہانت کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے، علماء پر نشتر زنی کرنے والوں کا ظاہری ہدف تو علماء ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا ٹارگٹ اسلام اور شریعت مطہرہ ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں، اخلاق باختہ جملے کسے جاتے ہیں، لچر بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس مخصوص طبقۂ سے جڑا ہر شخص اپنی تربیت کا جتنا کھل کر اظہار کرسکتا ہے وہ کرتا ہے۔
شریعت کے مقابلے میں کبھی سائنس کو لاکر کھڑا کردیا جاتا ہے تو کبھی محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو۔ خود ساختہ ماہرین نجانے کہاں کونے کھدروں سے برساتی مینڈکوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں اور آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ دو دہائی تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان رہے، اس وقت بھی چاند کی رویت پر تنازعہ ہوتا رہا، بدقسمتی سے یہ روایت اب تک جاری ہے۔ اب مولانا سید عبدالخبیر آزاد مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ ہیں وہ گزشتہ پندرہ برس تک اس کمیٹی کے رکن رہے اور وہ پاکستان کی تاریخی بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب بھی ہیں۔
مولانا عبدالخبیر آزاد کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا انصاف کا قتل ہوگا کہ انھوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا پہلا اجلاس پشاور میں طلب کیا اور رمضان المبارک کا چاند اس شہر میں دیکھا جہاں ایک متوازی کمیٹی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں چاند دیکھتی تھی۔ ان کے اس اخلاص کی برکت سے اللہ رب العزت نے کرم فرمایا اور پورے ملک میں ایک ہی دن ماہ رمضان کا آغاز ہوا۔
شوال کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس مولاناعبدالخبیر آزاد نے اسلام آباد میں طلب کیا اور بدھ کو شرعی شہادتیں موصول ہونے پر شوال کے چاند کا اعلان کردیا جس پر ایک مخصوص طبقہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک طوفان برپا کردیا، افسوس کی بات یہ کہ اس مہم کو کچھ علماء نے رویت ہلال پر اعتراض کرکے ایندھن فراہم کردیا۔
چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد کی طرف سے یکم شوال کے چاند کا اعلان کرنے کے بعد جو ردعمل آیا اس بارے میں بعض پہلو غور طلب ہیں۔
1۔ مولانا عبدالخبیر آزاد نے فیصلہ اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ چاند کی رویت کی شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا، یہی ان کے منصب کا تقاضا تھا، پھر یہ ان کا ذاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ پوری مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تھا۔
2۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس سے قبل پورے ملک میں ایسا ماحول بن گیاکہ عید 14مئی بروز جمعہ کو ہوگی۔
3۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مولانا آزاد نے ملک پاکستان میں منتشر امت کو یکجا کیا، ایک طویل عرصے کے بعد پورے پاکستان میں ایک ہی دن رمضان کا آغاز ہوا اورایک ہی دن عیدالفطر منائی گئی۔ جس کے لیے یقیناً مولانا آزاد کی دن رات کی سعی وجدوجہد اوراللہ کی مدد ونصرت شامل حال تھی۔ ان کے اس کارنامے پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن ان کے خلاف منفی پراپیگنڈا کیا گیا جو کہ اچھی روش نہیں۔
4۔ سب سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ چاند کا اعلان اتنی تاخیر سے کیوں کیا گیا۔ پنجاب میں جہاں مطلع ابر آلود تھا جس وجہ سے وہاں چاند نظر آنے کے امکانات انتہائی کم تھے لیکن ملک کے دیگر علاقوں سے چاند کی رویت کے بارے میں شہادتیں موصول ہوئیں جنھیں نظر انداز کرنا بھی شرعی اصولوں کے خلاف تھا لہٰذا کمیٹی نے انتہائی دانشمندی مندی جرآت اور بہادری کے ساتھ شرعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔