شاہد خان اس بار طالبان وفد کے ہمراہ اسلام آباد آئے لیکن میں مصروفیات کے باعث وہاں نہ جا سکا تاہم اس دورے کے متعلق چند نکات کا مجھے علم ہو گیا۔ اب انہوں نے دوحہ میں بین الاقوامی مذاکرات کی کچھ اطلاعات دی ہیں۔ شاہد خان بہت محبت والے نوجوان ہیں جو باریک جزئیات کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اتور کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تاریخی عمل کا آغاز ہوا۔ چند ماہ قبل جو ناقابل عمل دکھائی دیتا تھا اب روبہ عمل ہے۔ عالمی طاقتیں کیسے کھیل کھیلتی ہیں۔ پہلے افغانوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور اب ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ دونوں فریق دبائو میں دکھائی دیئے۔ طالبان پر یہ دبائو کہ حکومت ملنے کے بعد ملک چلانے کے لیے وسائل جن ذرائع سے دستیاب ہوں گے وہاں امریکہ کا حکم چلتا ہے۔ افغان حکومت پر یہ دبائو کہ اس نے انتقال اقتدار کے عمل کو خون ریزی سے محفوظ بنانے کی کوشش نہ کی تو امریکہ ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکے گا۔
دوحہ میں افغان طالبان اور افغان حکومت و گروہوں کی باہمی بات چیت پر دنیا کی نظریں لگی ہیں۔ زلمے خلیل زاد نے صدر ٹرمپ کو جانے کیا کیا وعدے کر کے شیشے میں اتارا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور چند دیگر معاملات میں حمایت کے بدلے افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے کو کہا۔ چین، روس اور خطے کے دیگر ممالک کے اپنے مفادات ہیں جو اب افغانستان میں امن سے منسلک ہو چکے ہیں۔ ایک بھارت ہے جس کی آرزو ہے کہ افغانستان میں کبھی امن نہ ہو اور وہ بدامنی کے شکار ملک میں معمولی سرمایہ کاری کر کے پاکستان مخالف سوچ کی نشوونما کرتا رہے۔ اس پس منظر کے ساتھ پہلے دن مذاکرات میں ان امور پر اتفاق رہا کہ
:i۔ افغانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو خود ہی طے کرنا ہوگا۔ دنیا ان کی اسی صورت میں مدد کرے گی۔
ii۔ افغانستان میں امن و استحکام لانا افغانوں کی ذمہ داری ہے۔
iii۔ امن صرف افغانوں کے مفاد میں نہیں بلکہ خطے اور عالمی مفادات بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
iv۔ امریکہ افغانستان کو آئندہ جو امداد دے گا وہ مشروط ہوگی۔
اس بار افغان طالبان کی طرح سادہ لباس میں ان کے حامی میڈیا کے افراد کو بھی مذاکرات میں شریک شخصیات تک رسائی ملی۔ ایسے ہی ایک صحافی نے افغان حکومت کے نمائندے سے پوچھ لیا: آپ کو ان لوگوں کے برابر بیٹھ کر بات کرنا کیسا لگ رہا ہے جنہیں حقیر سمجھ کر آپ ان پر بمباری کیا کرتے تھے۔
ملا عبدالغنی برادر امریکی مذاکراتی ٹیموں پر اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ مذاکرات میں شریک امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اپنے مطالبات بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان دو باتوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے
:i۔ آزادی
ii۔ اسلامی نظام حکومت
ان دو مطالبات کے اندر مستقبل کا افغانستان چھپا ہوا ہے۔ طالبان امریکہ کا دبائو ان دو معاملات پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ طالبان رہنما ذبیح اللہ مجاہد نے مذاکرات کے دوران کہا کہ ہم کابل ادارے کو ایک حکومت کے طور پر نہیں جانتے۔ کابل ادارہ غیر ملکی افواج کی خواہش اور ان کی موجودگی میں بنایا گیا۔ اگر کوئی آج خود کو کابل حکومت کا وزیر کہتا ہے تو ہم اسے وزیر نہیں مان سکتے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان افغانستان کے تنازع سے جڑے مختلف فریقوں سے بات چیت کریں گے اور افغان قوم کی خواہش کو پیش نظر رکھ کر ایک نظام تشکیل دیں گے۔
میری کئی افغان امور کے ماہرین سے بات ہوئی ہے۔ ان سب نے بین الافغان مذاکراتی عمل کو لاحق کچھ خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان مذاکرات میں اس نوع کے مسائل حل نہ ہوئے تو بات چیت کی مقصدیت مجروح ہو سکتی ہے۔ یہ معاملات حسب ذیل ہیں
:i۔ فریقین کے مابین شدید اختلافات اور باہمی عدم اعتمادی کی فضا کا خاتمہ۔
ii۔ سب سے اہم معاملے، مستقبل کے نظام کی تشکیل اور اس کی جزئیات کا طے کرنا ہے۔
iii۔ ان مذاکرات میں ان معاملات پر کسی نہ کسی حد تک اتفاق ضرور ہونا چاہیے کہ کون کتنا تعاون کرے گا۔ حکمران کون ہو گا اور کون کیا کردار ادا کرے گا۔ آپ اسے پاور شیئرنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔
بین الافغان مذاکرات کا آغاز پاکستان کی تین برسوں سے جاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ 35 ممالک ان مذاکرات کا کسی نہ کسی لحاظ سے حصہ ہیں۔ ایک بہت بڑی سفارتی جنگ لڑی جا رہی ہے جس کی کامیابی کا انحصار فریقین کے کردار پر ہے۔ نعیم وردگ دوحہ میں طالبان دفتر کے نئے ترجمان ہیں۔
نعیم وردگ سے ایک صحافی نے خواتین کی آزادی اور نمائندگی سے متعلق سوال کیا۔ عالمی سطح پر یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ طالبان ماضی کی اپنی پالیسیوں کے بارے میں کیا نئی رائے رکھتے ہیں۔ نعیم وردگ نے جواب دیا کہ خواتین کا حق یہ نہیں کہ وہ ہر جگہ موجود ہوں بلکہ ان کے حقوق کے لیے عملی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ طالبان وفد نے افغانستان میں نئے فتنے کے متعلق امریکی حکام سے بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان حکومت دولت اسلامیہ سے مل کر حال ہی میں رہا ہونے والے طالبان کو قتل کرنا چاہتا ہے۔
افغان قوتیں پہلی بار ایک ساتھ بیٹھی ہیں۔ ہتھیاروں سے بات کرنے والے مذاکرات کر رہے ہیں۔ افغانستان ایک خاموش تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔