لاہور کے علاقے گجرپورہ میں لنک موٹر وے پر کار سوار خاتون سے زیادتی ہوئی۔ وقفے وقفے سے وحشی مزاج ہمارے سکون کو غارت کرتے رہتے ہیں۔ کئی قانونی سوال اٹھے ہیں جن کو دماغ قبول کرنے لگے ہیں، صدمے سے نکلنے پر سارا سماج سوچ سکتا ہے کہ یہ وقعہ کیوں ہوا اور اسے کیسے روکا جا سکتا تھا۔
پاکستان میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات پر ہر بار عوامی سطح پر شدید ردعمل آیا۔ حیرت یہ کہ اس ردعمل کی شدت قانون کا حصہ نہیں بن پائی۔ جانے کتنی زینب قتل ہوئیں تو زینب ایکٹ تیار ہوا۔ یہ جو جمہوریت کے لیے جینے مرنے کی بات کرتے ہیں، ان لیڈروں نے دو سال تک زینب ایکٹ منظور نہ ہونے دیا۔ آج ہر کسی کا خون ابل رہا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ مہنگے اینکروں سے سجا الیکٹرانک میڈیا۔ ہر جگہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ گجر پورہ لنک روڈ پر زیادتی کے واقعہ میں ملوث افراد کو پکڑ کر سرعام پھانسی دی جائے۔ کیا آپ جانتے ہیں بے حس کسے کہتے ہیں:
سب مومی الفاظ مظفر بے حس تھے گونگے تھے
دل کی آنچ ملی تو نکلی بوند بوند چنگاری سی
اپنے اردگرد دیکھ لیجئے، بہت بے حس مل جائیں گے۔ سیاستدان جو کسی مظلوم کے والد کا بھری پریس کانفرنس میں مائیک بند کردیں گے، پولیس اہلکار جو تفتیش کے نام پر مظلوم سے روپے طلب کریں گے، یہی کہا تھا نا چونیاں میں قتل ہونے والے ایک بچے کی ماں نے۔ عدالتیں جو سارا ملبہ پولیس کی ناقص تفتیش پر ڈال کراپنی نیک نامی برقرار رکھتی ہیں ان سے کوئی یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ قانون کی بالادستی کی بجائے ظلم کی بالادستی کس نے قائم کی۔
پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی خبریں اکثر اوقات سامنے آتی رہتی ہیں جس میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے مطابق 2018ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اور ریپ سمیت مختلف جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 57 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ تاہم ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کے مسئلے کو زیادہ اہمیت، نہیں دی گئی۔
جنوری 2018ء میں آٹھ سالہ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں عوامی غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور شاید پہلی بار اس مسئلے پر کھل کر بات کی گئی۔ یہ صورت حال ایسی ہی تھی جیسی ہمسایہ ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں بس ریپ کے بعد شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور حکومت کو ریپ کے واقعات کو روکنے کے سخت قانون سازی کرنا پڑی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں عورتوں کی عصمت دری کے سالانہ تین ہزار کے قریب مقدمات درج ہوتے ہیں لیکن مجرمان کو سزا ملنے کی شرح چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اصل واقعات کی تعداد کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال قریب پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ عورتیں اور لڑکیاں اسقاط حمل کرانے پر مجبور ہو جاتی تھیں اور ان میں سے پانچ کروڑ کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا تھا، جن میں سے پاکستان بھی ایک ہے۔
اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ بعض شخصیات کے خیال میں معاشرے کا رویہ اس کم شرح کا ذمہ دار ہے۔ اگر کوئی جنسی جرم یا زنابالجر ہو جائے تو ہم اسے ایسے نظر انداز کرتے ہیں جیسے کہ وہ ہوا ہی نہیں۔ پولیس کی ناقص کارکردگی، شواہد جمع کرنے میں سستی سمیت کئی دوسرے عوامل اس کیپس پردہ کارفرما ہیں۔ ایک سابق جج صاحب کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے تک اس طرح کے مقدمات میں گواہ بھی چاہیے ہوتے تھے۔ ان کے بقول، "بے چاری عورت چار گواہ کہاں سے لاتی۔ شکر ہے کہ اب وہ قانون نہیں ہے۔ اب ڈی این اے اور دوسرے سائنسی معاملات کو بھی بروئے کار لایاجاتا ہے۔ انہیں امید ہے کہ مستقبل میں معاملات بہتر ہوں گے لیکن اس میں وقت لگے گا۔
کئی ماہرین کا کہناہے کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں ہوتے ہیں جب کہ سائنسی لیبارٹریاں شہروں میں ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے اس جرم کی شکار دیہی خواتین کو مقابلتاً زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کا رویہ بہت ہی ہتک آمیز ہوتا ہے۔ مختاراں مائی نے بتایاتھا کہ "میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی کہ پولیس کا رویہ کتنا ہتک آمیر ہوتا ہے۔ میرے ساتھ تو پورا پاکستان تھا لیکن جب ایک عام عورت پولیس کے پاس جاتی ہے تو پولیس اس سے بہت ہی شرمناک سوالات کرتی ہے۔ معاشرہ ان کو عجیب نظروں سے دیکھتا ہے اور وکیل بھی ایسے سوالات کرتے ہیں کہ گویا وہ آپ کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہوں۔ پولیس ایف آئی آر درج کرنے میں بہت دیر کرتی ہے۔ لیبارٹری لے جانے میں بہت دیر کرتی ہے اور شواہد رشوت لے کر ضائع کر دیے جاتے ہیں۔"
ہر واقعہ سو پہلو رکھتا ہے، کبھی مظلوم ظالم بن کر سامنے آتا ہے، کبھی سچ ایک لمحے کی تمازت سے پگھل جاتا ہے، کبھی جھوٹ اچانک سنہری سچائی کا آفتاب بن کر چمک اٹھتا ہے۔ گجرپورہ لنک روڈ پر ایک واقعہ ہوا ہے جس کے باقی پہلو ابھی پردے میں ہیں۔ اب تک اتنا ہی ہو سکا کہ اپوزیشن سی سی پی او عمر شیخ کو برا بھلا کہہ رہی ہے۔
ہم ایسے ہی ہیں، خاک اڑانے والے، بے ہنگم، فساد پسند، سیدھے معاملات کو الجھانے والے، اذیت پسند، پولیس، میڈیا، عدالتوں اور سماج کو اپنی اذیت پسندی کا علاج کروانا چاہیے۔ تازہ اطلاع کے مطابق مجرم گرفتار ہو گئے ہیں لیکن ہماری اذیت پسندی کیسے کم ہوگی؟