بلوچستان سے اچھی اطلاعات نہیں مل رہیں۔ جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کی خبریں جنوری 2021ء میں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ بھلے عام شہری اس صورت حال سے بے خبر ہو، سیاستدان اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں تاہم سکیورٹی ادارے مسلسل جائزہ لیتے رہے ہیں کہ امریکی انخلا بلوچستان پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
بلوچستان میں اس وقت سے ایک ایسی عسکریت پسند تنظیم فعال کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جب صدر اوبامہ نے 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے نکلنے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس تنظیم کا کام ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جس سے تاثر ابھرے کہ امریکہ شکست کھا کرنہیں نکلا بلکہ اس کی واپسی رضاکارانہ ہے اور امریکی انخلا سے خطے میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہوگئی ہے۔ اب جن علاقوں میں سکیورٹی کے لیے چیلنج پیدا ہو سکتے ہیں بلوچستان ان میں سرفہرست ہے۔ بلوچستان سی پیک منصوبوں کے ذریعے علاقائی تجارت کا مرکز بن رہا ہے۔ سی پیک منصوبے اگر بروقت مکمل کرلیے جاتے ہیں تو پاکستان جنوبی ایشیا کی بڑی معاشی اور بحری طاقت بن سکتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ بلوچستان کو ہوگا کہ پسماندگی ختم ہوگی، مقامی آبادی خوشحال ہوگی لیکن پاکستان کی خوشحالی کے راستے میں داعش آ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ وہی داعش ہے جس پر بمباری کے مطالبہ پر سی آئی اے چیف اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں چپ ہو گئے۔
یہ داعش ہی تھی جس نے مئی 2017ء میں کوئٹہ سے دو چینی مترجمین کو اغوا کر کے قتل کردیا۔ اس واردات کا مقصد بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو یہ پیغام دینا تھا کہ داعش اور ان کے اہداف ایک ہیں۔ بلوچ عسکریت پسند گروپ بھی چینی انجینئروں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ سکیورٹی اداروں نے 2017ء میں ہی داعش کے آلہ کارگروپ لشکر جھنگوی العالمی کے مستونگ کے قریب کوہ سیاہ میں موجود ٹھکانوں کو ختم کیا۔ اس کارروائی میں 12 عسکریت پسند مارے گئے۔
جولائی 2019ء میں سکیورٹی اداروں کی کارروائی میں داعش کا اہم کمانڈر مارا گیا۔ شکراللہ جنوب مغربی بلوچستان میں متعدد خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اسے ڈیرہ مراد جمالی کے قریب مارا گیا۔ بلوچستان تانبے، زنک، سونا اور قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ مقامی سردار بسا اوقات بد امنی میں ملوث ہو جاتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، سردار سمجھتے ہیں کہ کسی طرح کی بیرونی مداخلت سب سے پہلے ان کے اختیارات کو چیلنج کرے گی۔ سکیورٹی ادارے، سرداروں کے گارڈ اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کے باوجود وسیع و عریض علاقہ ابھی تک مکمل نگرانی کے مسائل کا شکار ہے۔
Anadolu Agency کی حالیہ برس جنوری کی رپورٹ میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے حوالے سے بتایا گیا کہ اشرف غنی حکومت کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے داعش افغانستان میں پائوں جما رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ داعش کو بھارتی خفیہ ایجنسی را مدد فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کے حکام نے اس صورت حال سے افغان حکومت، امریکہ اور خطے کے اتحادیوں کو آگاہ کیا ہے۔ پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی افغان سرزمین سے ہورہی ہے۔ انہی دنوں داعش نے جنوب مغربی بلوچستان میں 11 کان کنوں کو شہید کیا، ان کے لواحقین نے کئی روز تک دھرنا دئے رکھا اور وزیر اعظم عمران خان کی آمد تک تدفین سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں یہ معاملہ طے پایا اور وزیر اعظم نے کوئٹہ جا کرشہدا کے لواحقین سے تعزیت کی۔
پچھلے 20 برس کے دوران پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے القاعدہ کے 11 سو کارکنوں کو پکڑا، مارا یا پھر ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ 12 سو سکیورٹی آپریشنوں میں 18ہزار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان بیس برسوں میں پاکستان کے 83 ہزار شہری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں 126 ارب ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ جب فوجی ترجمان بلوچستان میں سکیورٹی مسائل اور شہادتوں کی بات کررہے تھے تو ان ہی دنوں میں پاکستان کی کچھ اپوزیشن جماعتیں جی ایچ کیو کے باہر دھرنے کا اعلان کر رہی تھیں۔ عام شہریوں کے لیے یہ سول ملٹری ریلیشنز کی بحث تھی، معاملات سے واقف حلقے اس اعلان کو کسی طاقت کا خفیہ اشارہ سمجھ رہے تھے۔ ایسا ہی اشارہ حالیہ دنوں حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب بم دھماکے سے دیا گیا۔ تفتیشی ٹیمیں ذمہ دار عناصر اور ان کے مقاصد تک پہنچ چکی ہیں۔
بلوچستان میں داعش ایک سفاک گروپ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ داعش کی موجودگی جن مقامات پر پائی گئی ان میں مستونگ، ڈیرہ مراد جمالی، کوئٹہ، قلات، خضدار اور بولان کا علاقہ شامل ہے جہاں اس دہشت گرد تنظیم کے سلیپر سیل پائے گئے۔ عمران خان کان کنوں کے لواحقین سے ملنے جب کوئٹہ گئے تو انہوں نے واضح طورپر تسلیم کیا کہ لشکر جھنگوی داعش میں مدغم ہو چکی ہے۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ لشکر جھنگوی اور داعش الگ الگ ہیں لیکن کئی کارروائیوں میں ایک دوسرے کے وسائل اور صلاحیت سے استفادہ کرلیتے ہیں۔ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سکول پر حملے میں لشکرجھنگوی نے عسکریت پسند فراہم کئے، پھر تحریک طالبان پاکستان نے کئی بار داعش کو اپنی افرادی قوت فراہم کی۔ ایران پاکستان سرحد پر سرگرم جیش العدل بھی داعش کو مدد دیتی رہی ہے۔
اللہ خیر کرے، امریکہ اور بھارت شام و عراق جیسا پرتشدد ماحول بلوچستان میں بنانے کی کوشش میں ہیں۔ اتحادی بننے پر ہم نے قومی غیرت گروی رکھی، اب انکار کیا ہے تو اس خودداری کی ایک قیمت تو ہوگی۔ اس ساری تشویشناک صورتحال میں اگرپارلیمنٹ کا کردار دکھائی نہ دے تو فکر نہ کریں اراکین ایک دوسرے سے لڑنے سے فارغ ہوں تو ملک کو بھی بچا لیں گے۔ سر دست یہی بہت ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس یکم جولائی کو طلب کر لیا ہے جس میں تمام جماعتوں کی پارلیمانی قیادت کو خطے کی بدلتی صورتحال پر بریف کیا جائے گا۔