گالی کیا ہے، ایک لفظِ سخت یا الفاظ کا وہ مرکب جو مخاطب کی قوت برداشت کو توڑتا ہے، اگر ہم اپنے بارے میں کسی کے لفظ سن کر تکلیف محسوس کریں، ہمیں برا لگے، غصہ آئے، غلط لگے یا دکھ پہنچے تو یہ گالی ہو سکتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں برے رویے گالیوں کی شکل میں موجود ہیں۔ گالیاں کسی سماج کی منفی سوچ کا تجزیہ ہوتی ہیں۔ مغربی معاشروں میں عموماً ایسی گالیاں مقبول ہیں جو براہ راست مخاطب کی ذات یا کردار کو ہدف بناتی ہیں۔ مشرقی معاشروں خاص طور پر برصغیر میں گالیاں محترم اور پیارے رشتوں پر گولہ باری ہیں۔ پھر ایک پہلو یہ ہے کہ جو رشتہ انسان کے لئے غیرت کی علامت ہو گالی تخلیق کرنے والے اسے خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں۔
نامور ادیب اور ہمارے اساتذہ میں سے ایک حمید اختر صاحب ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ ایک بار سکول میں ان کے ہم جماعت نے دوسرے ہم جماعت کو گالی دی۔ جسے گالی ملی وہ شکایت لے کر ماسٹر صاحب کے پاس گیا۔ ماسٹر صاحب دیہاتی سکھ تھے۔ انہوں نے پوچھا کیا گالی دی۔ شکایت کرنے والے نے ہچکچاتے ہوئے گالی دہرا دی۔ ماسٹر صاحب گالی دینے والے پر سخت برہم ہوئے۔ اسے بلایا، ڈنڈے مارے اوروہی گالی منہ بھر نکال کر اسے کہا کہ سزا اس لئے نہیں دے رہا کہ تم نے گالی دی، پٹائی کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں گالی دینا نہیں آتا۔ یہ سوال اہم ہے کہ گالی دینا کیوں ضروری ہے اور گالی دینے کا فائدہ کیا ہوتا ہے۔ ہمارے لفظ اس وقت تک کوئی وزن اور شکل نہیں رکھتے جب تک وہ زبان سے ادا نہیں ہوتے۔ کون سا پتھر بن گیا اور کون سا ہمارے تعصب اوربداخلاقی کی شکل میں دوسروں تک پہنچے گا اکثر لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا۔
گالی کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی کی توہین کی نیت سے بولے گئے الفاظ گالی ہو سکتے ہیں۔ کسی کو دھمکی دی، کم تر ظاہر کیا اور الزام لگایا تو یہ سب گالی ہی ہے۔ آپ جب کسی کو ان میں سے کسی ایک شکل کی گالی دیتے ہیں اور پھر اس کا اعادہ نہیں کرتے تو ممکن ہے آپ اس عمل کے منفی اثرات سے بچ جائیں لیکن اگر آپ کی زبان، لہجہ اور مزاج گالیوں میں بے باک ہو گیا ہے اور یہ عمل دن میں کئی بار انجام دیتے ہیں تو اس سے گالی نکالنے والے کی اپنی شخصیت چھوٹی ہونے لگتی ہے۔ وہ خود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔ اس میں شرم و حیاء ختم ہو جاتی ہے اور احساس گناہ اور خود پر شک انتہائی مہلک سطح پر جا پہنچتے ہیں، ڈیپریشن کو حملہ آور ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ زبانی گالم گلوچ کئی نفسیاتی اور جذباتی اثرات کا سبب بن جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں کچھ گالیوں کو نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ مثلاً بس میں بیٹھی ایک خاتون جب اپنے کم سن بچے کو کہہ رہی ہوتی ہے کہ "تم گندے بچے ہو، رونا بند کرو، ہنگامہ مت کرو، تمہاری وجہ سے ماحول برا ہو رہا ہے، تم شریر ہو، تم بدصورت ہو اور بہت برے بچے ہو، تو ممکن ہے آپ اسے ایک ماں کا اکتایا ہوا لہجہ سمجھ کر خاموش رہیں مگر ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا جی چاہتا ہے کہ ایسی ماں سے بچہ چھین کر زور سے گلے لگا لے اور بچے سے کہے کہ جب تمہیں کوئی ایسا کہے تو تم ہرگز اس کی باتوں کا یقین نہ کرنا۔ پدرسری معاشرے میں یہ بہت عجیب بات ہو گی کہ ایک عورت اپنے خاوند کو گالیاں دے۔ کھلے عام شاید وہ ایسا نہ کرے لیکن ممکن ہے کہ کسی خاص ماحول یا اکیلے میں وہ اپنے شوہر کو گالیاں دینے سے گریز نہ کرتی ہو۔ عورتوں کے لئے گھریلو تشدد کا قانون موجود ہے، اس قانون سے مظلوم مرد بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے بگڑے رویوں کی نشاندہی کریں اور اصلاح کی خاطر اپنی تجاویز پیش کریں۔
سماج میں سیانے باشعور اور دانا سمجھے جانے والے لوگ اپنے سے چھوٹی عمر اور کم حیثیت والوں کے لئے مثالی کردار ہوتے ہیں۔ ہمیں بچپن میں سکھایا گیا تھا کہ کسی کو گالی نہیں دینا، گالی پلٹ کر نکالنے والے کو آتی ہے۔ اس وقت گالی کے پلٹنے کا ادراک نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنیں تو میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے انہیں کیا کچھ نہیں کہا۔ پارلیمنٹ سے باہر تو الگ بات ہے پارلیمنٹ کے اندر مسلم لیگی اراکین اشارے کنایوں اور ذومعنی جملوں سے اپنے قائد کی زیر لب مسکراہٹ کوگہرا کیا کرتے۔ کئی لوگ اس قابلیت کے سہارے وزیر بنے اور اب تک بنتے آ رہے ہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے معاملے پر کیا کیا بیہودہ افسانے بنے۔
نواز شریف نے جتنی گالیاں اور گندی باتیں بھٹو خاندان کی خواتین کے متعلق پھیلائی تھیں ان سے زیادہ پلٹ کر ان کی طرف آنے لگیں۔ پیپلز پارٹی کا رویہ اس لحاظ سے قابل ستائش اور سنجیدہ رہا لیکن اب یہ غیر سنجیدہ اور قابل رحم طرز عمل میں تبدیل ہو رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے اپوزیشن کی خاتون رکن کو علیحدگی میں ملنے کا کہا تو آصفہ بھٹو زرداری نے نوٹس لیا۔ وزیر موصوف نے جس ایوان میں کھڑے ہو کر بدکلامی کی تھی وہیں پر خاتون کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے عزت دی۔ عبدالقادر پٹیل نے جس انداز میں مراد سعید پر لفظی حملے کئے وہ گالیاں ہیں، دوسروں کے اعصاب اور قوت برداست کو توڑنے والی گالیاں۔ بلاول بھٹو کیوں یہ سمجھ نہیں رہے کہ اس ایوان میں ان کی بہنوں نے آنا ہے، یہاں کا ماحول شیخ رشید، خواجہ آصف یا عبدالقادر پٹیل جیسے لوگوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ جس ایوان کو مقدس کہتے ہیں وہاں گندگی پھیلاتے ہیں۔ کیا کوئی انہیں بتائے گا کہ گالیاں پلٹ کر آتی ہیں۔