Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Corona Diplomacy

Corona Diplomacy

بھارت ان دنوں کوویڈ کے بدترین حملے کا سامنا کر رہا ہے۔ کورونا سے خوفزدہ لوگ اپنے ماں باپ اور بزرگوں کو سڑکوں پر پھینک کر بھاگ رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری کے نامور افراد بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریض داخل کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ برآمدوں، فٹ پاتھوں، ایمبولینسز اور کاروں میں لیٹے مریض آکسیجن کے سلنڈر سے زندگی پھیپھڑوں میں اتارنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ درجنوں ویڈیو دیکھ چکا ہوں، یوں لگتا ہے کہ انسان کی بے بسی اپنی انتہائوں پر ہے۔ بھارت کے چوراہوں پر پولیس اہلکار مسلمانوں سے اپیل کر رہا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے اور نماز کے دوران اللہ سے دعا کریں کہ کورونا کی وبا سے نجات ملے۔ صورت حال افسوسناک ہے۔ جانے مقبوضہ کشمیر کے کیا حالات ہوں۔

جناب فیصل ایدھی نے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ بھارت میں کورونا کے باعث صحت کی سہولیات پر پڑنے والے دبائو کا ذکر کرتے ہوئے فیصل ایدھی نے 50 ایمبولینسز اور عملے کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کے صارفین نے سوشل میڈیا پر بھارت کی مدد کے موضوع پر دردمندی کے ساتھ ایسی پوسٹ کی ہیں جنہیں دیکھ کر پتھر سے پتھر دل پگھل جائے۔ اس طرح کے جذبات کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی عوام انسانی اقدار اور رشتوں کا احترام کرتے ہیں۔ بھارت میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ پاکستان کے پاس اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ آکسسیجن موجود ہے لیکن سوال کیا جارہا ہے کہ گندم اور چینی کی طرح اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم اضافی مقدار باہر بھیج دیں تو اپنی ضرورت کے لیے مہنگے داموں درآمد نہ کریں گے۔ ذخیرہ اندوز کم ہیں لیکن موثر، اپنا کام شروع کر چکے ہیں، آکسیجن سلنڈر کی قیمیتیں بلاکسی وجہ کے بڑھنے لگی ہیں۔ یہ حکومت اور انتظامیہ کی صلاحیت پر سوال ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو سرکاری طور پر وینٹی لیٹر، ڈیجیٹل ایکسرے، پی پی ای اور دیگر متعلقہ اشیاء فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ بھارت نے بھی کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بات چیت کی پیشکش کر دی ہے، گویا ایک المیہ دونوں ممالک کو قریب لانے کی وجہ بن رہا ہے۔

فروری میں پاکستان اور بھارت کے سکیورٹی حکام نے ایل او سی پر فائر بندی کا اعلان کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ مسلسل کشیدگی یکایک سیز فائر میں کیسے بدلی ہے یہی نہیں بلکہ سندھ طاس کمشنروں کے رابطے بحال ہوئے، کئی شعبوں میں ویزوں کا اجرا شروع ہو گیا، پاکستان اور بھارت کی اعلیٰ سطح قیادت علاقائی تعاون پر زور دینے والے بیانات جاری کرنے لگی۔ اس ماحول میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 23 مارچ کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے نام خیرسگالی کا ایک خط ارسال کیا۔ یہ سب معاملات اس قدر اچانک پیشرفت کا مظہر تھے کہ ایک ہفتہ قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر دوشنبے میں ایک ساتھ موجود تھے لیکن دونوں کے مابین نہ کوئی رابطہ ہوا نہ ملاقات۔ کہا جارہا ہے کہ کابینہ کے جن وزراء نے بھارت سے تجارت بحال کرنے کی تجویز کی مخالفت کی تھی شاہ محمود قریشی ان کی قیادت کر رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ایسے اتار چڑھائو تعجب خیز نہیں۔ بھارتی حلقوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس بیان کو کوئی تجزیاتی تحریروں کا حصہ بنایا ہے جس میں انہوں نے جغرافیائی تعاون و رابطوں پر زور دیا۔ آرمی چیف کے اس موقف کو بھارت میں نمایاں دکھایا جارہا ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کو کامیاب اور ناکام کرنے کے خواہاں حلقے اپنی اپنی صف بندی رکھتے ہیں۔ دونوں کے پاس اپنے موقف کی حمایت میں پرزور دلائل ہیں۔

بھارت کے معروف اخبار دی ہندو نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے وزرا خارجہ نے ایک ہفتہ پہلے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ ان دونوں کا مقصد دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کی بحالی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی یو اے ای میں بات چیت کا محور معاشی تعاون اور کمیونٹی ویلفیئر جیسے موضوعات تھے۔ شاہ محمود قریشی نے علاقائی امور پر گفتگو کی۔ پاکستان نے تھرڈ پارٹی مصالحت کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی کے مطالبے پر کشمیر پر بات کرنے کی حامی بھری ہے جو اس کی معروف خارجہ حکمت عملی کے برعکس ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں دونوں ممالک کا بات چیت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تنازعات کو دوطرفہ مذاکرات سے طے کرنے کی جو بات کرتا رہا ہے اب اسے تبدیل کرکے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قطر جیسا چھوٹا سا ملک ہے جو امریکہ طالبان مذاکرات کی میزبانی کرتا ہے تو اس کی اہمیت دونوں فریقوں کے لیے اطمینان کا اظہار ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب خطے میں امریکی پالیسی کے محافظ ہیں۔ پھر یو اے ای نے پاکستان کے اکائونٹ میں جو ڈالر رکھے تھے اس کی مدت حال ہی میں بڑھا دی ہے۔ یو اے ای نے پاکستان سے افرادی قوت کے ویزوں سے متعلق پابندیاں عاید کر رکھی ہیں، بھارتی شہری پاکستانی لیبر کی جگہ بھرتی ہورہے ہیں۔ میرے دوست نے کئی مہینے انتظار کے بعد مجبوراً بھارتی لیبر رکھ لی۔ اب بھارت کو پیغام دیا گیا کہ اس نے مذاکرات پر حامی نہ بھری تو اس کی لاکھوں پر مشتمل افرادی قوت پر پابندی لگ سکتی ہے۔ سفارتی زبان میں یہ دھمکیاں نہیں ہوتیں، کام نکلوانے کے لیے اپنی طاقت کی طرف صرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

شنید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے خفیہ ماہرین عرب امارات میں مسلسل ایک دوسرے سے رابطے اور بعض امور پر تبادلہ خیال میں مصروف ہیں۔ اسے مختلف سطح پر بات چیت کے فریم ورک کی تیاری کا عمل کہا جا سکتا ہے۔ طے کیا جارہا ہے کہ خارجہ سیکرٹری، وزیر خارجہ اور وزیراعظم اپنا اپنا کردار کیسے ادا کریں گے، ان کے بیانات کی نوعیت کیا ہوگی اور معمولی سی پیشرفت کو اہم پیشقدمی بنا کر کیسے آگے بڑھاجائے گا۔