بیلنس آف پاور ایک تھیوری ہے۔ طاقت کا ترازو سیدھا کرنا۔ مخالف کے پاس الٰہ دین کا چراغ آ جائے تو اس کے برابر طاقت حاصل کرنے کے لیے بوتل کا جن آزاد کرنا پڑتا ہے۔ مسلم لیگ نے کبھی سیاسی تحریک چلائی نہ اسے اس کی تربیت ہے۔ اب بھی اسے سیاسی ا تالیق جو پڑھا رہے ہیں وہ سیاست نہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم بنا کر حکومت کے خلاف اپوزیشن نے طاقت کا جو توازن قائم کرنے کی کوشش کی اس کا سارا فائدہ سیاسی موسمیات سے واقف اور تربیت یافتہ پیپلزپارٹی کو ہورہا ہے۔ گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کو گویا واک اوور ملا ہوا ہے۔ سندھ کے جزائر والا معاملہ ایک بار التوا میں چلا گیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو علاج کے لیے رعایتیں مل گئی ہیں۔ آصف زرداری کے لیے بھی نرمی دکھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
مسلم لیگ کا بیانیہ بری طرح پٹ رہا ہے۔ جمہوری آزادیوں کی بات ہوتی، انتخابی اصلاحات کا مطالبہ ہوتا ہے۔ معاشی اصلاحات کو نعرہ بنایا جاتا، ملکی ترقی کا کوئی متبادل ایجنڈا پیش کیا جاتا تو کوئی مان لیتا یہ سیاسی بیانیہ ہے جن کے ساتھ مل کر جمہوریت اور جمہوری تحریکوں کے خلاف کام کیا اب انہیں صرف اس لیے برا کہنا عجیب سا لگتا ہے کہ وہ خاندانی اور وراثتی حکمرانی کے خلاف جمع ہونے والی تیسری قوت کو ایک جمہوری طاقت تسلیم کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے طاقت کا توازن سیاسی حوالے کی بجائے احتساب مخالف محاذ پر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح مسلم لیگ ن کا آصف علی زرداری کی کرپشن کے متعلق پروپیگنڈا تسلیم کیا جا چکا ہے اسی طرح مسلم لیگ ن کی قیادت کی کرپشن پر اب اکثریتی ووٹر آنکھیں بند کر کے یقین کئے بیٹھے ہیں۔ ان ووٹرز تک ن لیگی قیادت کسی وجہ سے پچھلے کئی برسوں میں نہیں پہنچ سکی اس لیے اب وہ حالات کی گرفت میں ہے تو مریم نواز کی تقاریر ان ووٹرزکی رائے کو تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔
مسلم لیگ ن کے فیصلہ ساز حلقوں کو اپنی کمزور حیثیت کا احساس ہے۔ سب سے پہلی کمزوری یہ کہ مسلم لیگ کے پاس سٹریٹ پاور نہیں۔ لاہور اور گوجرنوالہ کے سوا کسی شہر میں مسلم لیگ ن قابل ذکر جلسہ نہیں کر سکتی۔ قومی سطح پر اپنی بات کو پہنچانے کے لیے اسے ایسی جماعتوں کی ضرورت تھی جو ایک طرف اس کے انتہا پسند موقف کے لیے ہم آواز ہوں اور دوسری طرف اپنے کارکن ادھار دے کر بلوچستان، کے پی کے اور سندھ میں جلسے بھر سکیں۔ مولانا فضل الرحمن اس کام کے لیے بہترین تھے، اے این پی سے کام چل سکتا تھا، مینگل کو حکومتی اتحاد سے الگ کر کے اپنے ساتھ ملانے سے بلوچستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کامنصوبہ تیار کیا گیا لیکن:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
مریم نواز جس ایجنڈے کو نواز بیانہ کہتی ہیں اب تک پی ڈی ایم کے تمام جلسوں میں اسی پر بات ہوئی۔ کوئی ایسی جماعت جو سیاست کرنا چاہتی ہے وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ نواز بیانیہ ایک ایسے مغلوب الغضب خاندان کی دشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں جسے پہلی بار ریاستی نظام نے سو فیصد رعایت دینے سے انکار کردیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک نیا میثاق جمہوریت ترتیب دینے پر آمادہ ہیں۔ شاید اس کی ضرورت پیپلزپارٹی کو نئی سیاسی یقین دہانیوں اور اخلاقیات کا واسطہ دے کر باندھنے کے لیے پیش آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو نے بی بی سی کو انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اپنی اور اپنی جماعت کی نواز بیانیے کے حوالے سے پوزیشن واضح کی۔ انہوں نے کہہ دیا کہ فوج اور جرنیلوں کا نام لے کرتنقید نہ کرنے پر پی ڈی ایم میں اتفاق ہوا تھا لیکن میاں نوازشریف نے اس اصول کو توڑا۔ بلاول نے الزامات کے ثبوت دکھانے کا مطالبہ بھی بڑے شائستہ اور مہذب طریقے سے میاں نوازشریف کے سامنے رکھا۔
2006ء میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ یہ ایک تاریخی دستاویز ہو سکتی تھی اگر نوازشریف کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہوتے اور اپنے جمہوری وعدوں سے ایک ہزارویں بار روگردانی نہ کرتے۔ نیا میثاق جمہوریت ہونے کی باتیں ظاہر کرتی ہیں پرانا معاہدہ ناقابل عمل رہا۔ نیا معاہدہ کیا ہو گا؟ کیا اس میں عوامی حاکمیت کا تصور قبول کر کے جمہوری شناخت بنائی جائے گی۔ میثاق جمہوریت ایک آمر کے دور میں جلا وطن رہنمائوں نے کیا۔ اب کوئی جلا وطن ہے نہ ملک میں فوجی آمریت۔ ایک سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو منفی کر کے کیا کوئی نیا میثاق کارآمد ہو سکے گا؟
وہ لمحات ہم سب کے حافظے میں محفوظ ہیں جب 2008 کے انتخابی نتائج آنے پرنواز شریف اور آصف زرداری مل کر بیٹھے اور مشترکہ حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ پاکستان کے عوام نے اس جذبے کو سراہا۔ دونوں جماعتوں کی مقبولیت کا یہ عروج تھا جو نواز شریف کی ڈبل گیم نے زوال میں بدل دیا۔ مایوس عوام تیسری قوت کی طرف متوجہ ہو گئے۔ بلاول بھٹو زرداری مریم نواز کا احترام کرتے ہیں۔ مریم کی گرفتاری پر انہوں نے پارلیمنٹ میں جو شدید الفاظ استعمال کئے وہ معمولی بات نہیں تھی۔ مریم نواز بلاول بھٹو کے ان جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی فکر میں ہیں۔ وہ میاں نوازشریف سے سیکھی ہوئی ہیں کہ وقت پڑے تو اپنا کام کیسے نکلواتے ہیں۔ نیا میثاق جمہوریت اس فضا میں اگر ہوتا ہے تو اس کی روح نواز لیگ کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ جمہوریت اور عوام اس سارے عمل سے لاتعلق ہیں۔ مسلم لیگ کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے، ابھی بلوچستان میں اسے پارٹی عہدیدار ملنا مشکل ہورہے ہیں۔ پیپلزپارٹی ایک حد سے زیادہ تعاون پر تیار نہیں۔ رہے مولانا تو مسلم لیگ کو کسی بھی وقت مولانا کی جانب سے اعلان لاتعلقی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔