فائدہ اور منافع ہمارے راستوں میں جگمگاتے جواہرات کی طرح بکھرا پڑا ہے، ہم ہیں کہ پتھر اکٹھے کرنے کی طرف لپکتے ہیں۔ پتھر، روڑے نما انسان اور کچرا نما مراسم سے ریاست کو الجھاتے رہتے ہیں۔ ای سی او ممالک کا بلاک جنوبی ایشیا کے سارک سے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ اس بلاک میں کوئی بھارت نہیں۔ پاکستان مگر سست روی کا شکار۔ نوے کے عشرے میں وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کے جو خواب آنکھ کا سرمہ بنائے انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آنسو بہا لے گئے۔ نئی حقیقتیں سامنے کھڑی ہیں۔
جنوبی ایشیا امریکہ نے بھارت کو دے دیا، یہاں پاک بنگلہ شراکت داری ہو سکتی ہے لیکن کب ہو؟ اس عرصے کا تعین تاحال ممکن نہیں۔ پاکستان، افغانستان، آذر بائیجان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان ای سی او کا حصہ ہیں۔ اسے جغرافیاتی طور پر یوں پڑھ لیں کہ پاکستان سے تجارتی مال ٹرکوں پر لاد کر نکلیں، افغانستان سے تاجکستان، ترکمانستان، آذربائیجان اور ازبکستان تک چلے جائیں، ایک راستہ گوادر سے ہے جو وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچا دیتا ہے۔
تیسرا راستہ بلوچستان سے ایران اور وہاں سے وسط ایشیائی ممالک تک جاتا ہے۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ افغانستان والے راستے میں اشرف غنی، شمالی اتحاد، بھارت اور امریکہ بیٹھے تھے۔ اب یہ بارودی سرنگیں بھی طالبان نے صاف کر دی ہیں۔ پھر بھی پاکستان ای سی او ممالک سے تجارت میں 17کروڑ ڈالر خسارے کا شکار ہے۔
سی پیک نے ای سی او ممالک کو تجارت کے لئے اہم انفراسٹرکچر فراہم کیا ہے۔ خنجراب سے گوادر تک سڑکیں اور صنعتی زون بنائے جا رہے ہیں۔ سڑکیں بن گئیں اب صنعتی و اقتصادی زون بن رہے ہیں مگر قدرے سست رفتاری سے۔ پاکستان سی پیک منصوبوں میں توانائی کو اہمیت دے رہا ہے۔ چین تک تیل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ اہم ہے، ترکمانستان اور تاجکستان سے سستی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ گیس پائپ لائنیں بچھانے کا کام ہے۔ ان سارے منصوبوں سے اربوں ڈالر کا منافع جڑا ہوا ہے۔
میرین جنرل کیتھ مکنزی افغانستان میں امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے انخلا کے وقت اپنے فوجیوں کو ہدایت کی کہ افغانستان سے نکلتے وقت حساس جنگی آلات، جہازوں اور مشینوں کو ناقابل استعمال بنا دیں۔ امریکی فوجیوں نے تھرمیٹ گرینڈ استعمال کئے۔ یہ گرینڈ پھٹنے کے بعد چار ہزار ڈگری درجہ حرارت پیدا کرتے ہیں۔
امریکی دستوں نے روانہ ہوتے وقت 73طیارے، 23حموی گاڑیاں اور دیگر مشینری تباہ کی۔ جنرل مکنزی کا کہنا تھا کہ جن طیاروں کو توڑا گیا ہے وہ کبھی بھی پرواز کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ بہت سا سامان امریکی فوجی اپنے ساتھ لے گئے، کچھ چیزیں راز داری برقرار رکھنے کے لئے محدود سطح کے دھماکہ خیز مواد سے ناکارہ بنائی گئیں۔
بہت سے جھوٹے دعوئوں کی طرح امریکہ کی فوج نے سامان کو ناکارہ بنانے کے معاملے میں بھی کئی غلط بیانیاں کیں۔ افغانستان میں موجود ذرائع بتا رہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کئی جنگی آلات محفوظ حالت میں ملے ہیں۔ کئی طرح کے حساس آلات ان افغان فوجیوں نے طالبان کے حوالے کئے ہیں جو آخری دن ہتھیار ڈال کر طالبان کے ساتھ آ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ انخلا کرنے والی امریکی فوج کے پاس اس بات کے درست اعداد و شمار نہیں کہ طالبان کے پاس کون سے آلات، طیارے اور گاڑیاں ہیں اور ان کی تعداد کیا ہے۔ امریکی فوجی حکام کہتے ہیں کہ انخلا کے وقت ان کی ترجیح سامان نہیں انسانی جانیں بچانا تھا۔
انخلا سے قبل طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات سے ہمیں ہر وقت آگاہ کرنے والے دوست بتاتے ہیں کہ انخلا کے بعد افغان شہروں میں سڑکوں کے کنارے پر جنگی آلات اور اسلحہ کے ڈھیر لگ گئے۔ ازبکستان کی طرف جانے والی سڑک پر فوجی گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی۔ اسالٹ رائفل لے سے کر بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تک بیش قیمت سامان افغانستان میں رہ گیا۔ طالبان نے امریکی جنگی ہیلی کاپٹر اڑا کر دکھایا کہ یہ سامان بے کار نہیں، حموی گاڑی 50لاکھ ڈالر کی ملتی ہے، ایسی سینکڑوں گاڑیاں چالو حالت میں ہیں، توپیں اور رات کو دیکھنے والی عینکیں طالبان کے ہاتھ لگی ہیں۔
امریکہ جانتا ہے کہ طالبان کے پاس جو ہتھیار آ گئے ہیں وہ کس قدر خطرناک ہیں۔ اس لئے وہ اب تک طالبان کو مشتعل کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ طالبان امریکی اسلحہ و ہتھیار ایران، چین، روس یا پھر پاکستان کو فروخت کر سکتے ہیں۔ انہیں کسی حملہ آور سے لڑنے کے لئے صرف بندوق کی ضرورت ہے۔ کارآمد طیاروں، گاڑیوں، توپوں اور آلات کی قدر 50ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان چاہے تو اپنی کئی ضروریات اس اسلحہ سے پوری کر سکتا ہے۔ افغانستان وسط ایشیا تک پہنچنے کی راہداری ہے، اس راہداری سے ہمیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ تجارتی قافلوں کو تحفظ بھی۔
ای سی او ممالک سے تیل، گیس، ریشم، چمڑے، ملبوسات، غذائی اجناس اور کیمیکلز کے لین دین کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی انرجی مارکیٹ پر امریکہ کا کنٹرول ہونے سے پاکستان کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ عرب ممالک سے برادرانہ تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مفت اور ادھار تیل دینے والے اب پاکستان کو مہنگی شرح سود پر قرض دے رہے ہیں۔ اس صورت حال میں وسط ایشیائی بلاک سے اقتصادی روابط بڑھانا ضروری ہو گیا ہے۔ ای سی او کا ایک مثبت پہلویہ ہے کہ چین اس کا مخالف نہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں اردن کو حلال گوشت کی پہلی کھیپ بھیجی ہے۔ پاکستان کے تجارتی رابطے عام طور پر سعودی عرب اور عرب امارات تک محدود رہے ہیں۔
اردن، قطر اور بحرین میں متبادل فوائد ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ چین پہلے ہی پاکستان سے 20ارب ڈالر کا حلال گوشت ہر سال لینے کا کہہ چکا ہے۔ ہمیں بس اپنی لائیو سٹاک صنعت کو ترقی دینا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے صحرائوں اور بے آباد وسیع چراگاہوں میں کروڑوں جانور پالے جا سکتے ہیں۔ مقامی آبادی کو روزگار کی فراہمی ممکن ہو سکے گی اور پاکستان کو چین، اردن اور دوسرے ممالک کو گشت سپلائی کرکے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہو گا۔ دیکھنے کی استعداد بڑھانی ہے، ہمیں راہ میں پڑے کئی خزانے مل جائیں گے۔