پی ڈی ایم پر ن لیگ کے قانون فہموں کا اثر ہونے لگا ہے، مریم نواز کی طرح اکثر رہنماوں کو لگتا ہے فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کالعدم قرار پا جائے گی۔ معاملہ قانونی ہے اس لئے جذبات کو ٹھوڑا دور رکھ کر دیکھتے ہیں کہ اس معاملے کا نتیجہ ممکنہ طور پر کیا برآمد ہو سکتا ہے۔
ہم ہی نہیں ہمسائے میں بھی فارن فنڈنگ کا تنازع موجود ہے۔ بھارتی قانون کے تحت پارلیمنٹ کے اراکین، سیاسی جماعتیں، سرکاری افسران، ججز اور میڈیا پرسنز غیر ملکی عطیات وصول نہیں کر سکتے۔ تاہم 2017ء میں 1976ء کے ایکٹ میں ترمیم کے لئے فنانس بل منظور کیا گیا۔ اس بل میں فارن کنٹری بیوشن ریگولیشنز ایکٹ کو تبدیل کر کے سیاسی جماعتوں کو راستہ دیا گیا کہ وہ کسی غیر ملکی کمپنی کی بھارتی شاخ یا ایسی غیر ملکی کمپنی جس میں بھارتی شہریوں کے 50فیصد حصص ہوں، ان سے چندہ وصول کر سکتی ہیں۔ اس ترمیم کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگرس نے ایک دوسرے پر الزامات عاید کئے کہ انہوں نے برطانوی کمپنی Vedantaگروپ سے 2004ء سے 2012ء کے دوران سیاسی سرگرمیوں کے لئے فنڈز وصول کئے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارمز نامی عوامی حقوق گروپ نے مفاد عامہ کی ایک پٹیشن 2013ء میں دہلی ہائیکورٹ میں دائر کر دی۔ گروپ نے بی جے پی اور کانگرس پر الزام عاید کیا کہ انہوں نے فارن کنٹرل بیوشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی فنڈز وصول کئے۔ دونوں پارٹیوں نے دہلی ہائیکورٹ کی جانب سے فارن فنڈنگ کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر 2014ء میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ایکٹ میں ترمیم کے بعد دونوں پارٹیوں نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی پٹیشن واپس لے لیں۔
بھارتی ماہرین بتاتے ہیں کہ جو تنظیم فنڈز وصول کر رہی ہے اسے سوسائٹیز ایکٹ 1860ء انڈین ٹرسٹ ایکٹ 1882ء یا کمپنیز ایکٹ 1956ء کے تحت رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح غیر ملکی ڈونر کا خط منسلک کیا جاتا ہے۔
ایف سی آر ایکٹ غیر ملکی عطیات کو ریگولیٹ کرتا ہے یہ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ایسے عطیات بھارت کی داخلی سلامتی کے لئے منفی اثرات مرتب نہ کریں۔ یہ قوانین تمام تنظیموں، گروپس اور ان این جی اوز پر لاگو ہوتے ہیں جو غیر ملکی فنڈز چاہتی ہیں۔ ہر این جی او پر لازم ہے کہ وہ غیر ملکی فنڈنگ سے قبل خود کو رجسٹر کرائے۔ ایسی رجسٹریشن ابتدائی طور پر پانچ سال کے لئے ہوتی ہے۔ رجسٹرڈ تنظیمیں سماجی، تعلیمی، مذہبی، معاشی اور ثقافتی مقاصد کے تحت غیر ملکی فنڈز قبول کر سکتی ہیں۔ بھارتی حکومت نے کئی غیر ملکی ڈونرز کے خلاف کارروائی کی جن میں امریکی کمپنی کم پیشن انٹرنیشنل، فورڈ فائونڈیشن، ورلڈ موومنٹ فار ڈیمو کریسی، اوپن سوسائٹی فائونڈیشنز اور نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیمو کریسی شامل ہیں۔ ان تنظیموں کو نگرانی میں رکھتے ہوئے بلا اجازت رقوم بھیجنے سے روک دیا گیا۔ عدالتیں نئے تنازعات پر فیصلہ دیتے ہوئے عالمی قوانین اور روایات کو اہمیت دیتی ہیں اس لئے بھارتی کیس پاکستانی عدلیہ کے پیش نظر ہو سکتا ہے، خصوصا جب آزادی سے قبل کے قوانین ایک ہی طرح قبول کر لئے گئے ہوں۔
مسلم لیگ ن کے سابق رکن اسمبلی حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف دائر پٹیشن میں کہا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمشن کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرنے کے بارے غلط بتایا جو پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی خلاف ورزی ہے، حنیف عباسی کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کچھ غیر ملکی افراد کی فہرست بھی فراہم کی جنہوں نے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کو فنڈز دیے۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی نے یہ حقیقت اجاگر نہیں کی کہ PPO2001ء کے آرٹیکل 6(3) کے تحت کسی فرد سے چاہے وہ غیر ملکی ہو، فنڈز لینا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ پولیٹکل پارٹیز رولز 2002ء کے ضابطہ 4کے تحت ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ اپنے اکائونٹس فارم آئی کے مطابق رکھے جس میں آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع، اثاثے، قرض وغیرہ کی تفصیلات درج ہوں، یہ تفصیلات ہر مالی سال کے اختتام کے 16روز کے اندر الیکشن کمیشن کو جمع کرائی جائیں۔ ان حسابات کی جانچ چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے ہو۔ PPO 2002 اور 2002ء PPRکی تمام شقوں کو ملا کر پڑھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ الیکشن کمشن کو 2002ء PPR، کے ضابطہ 6کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فارن فنڈنگ کے معاملے کی تحقیقات کر سکے تاہم اس کی طاقت یہاں تک ہے کہ وہ غیر قانونی ثابت ہوئی رقوم کو ریاست کی ملکیت قرار دے کر ضبط کرنے کا حکم دے سکے۔ کسی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں۔ یہ کام صرف وفاقی حکومت کر سکتی ہے۔
2002ء PPOکے آرٹیکل 15کے تحت سیاسی جماعت کی تحلیل کے ضمن میں اگر وفاقی حکومت مطمئن ہو کہ کوئی سیاسی جماعت غیر ملکی امداد سے پلنے والی جماعت ہے یا یہ پارٹی پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کرنے یا دہشت گردی کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے تو وہ سرکاری گزٹ میں سیاسی پارٹی کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتی ہے۔ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرنے کے 15دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد کر سکتی ہے جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ سپریم کورٹ وفاقی حکومت کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی توثیق کر دے تو ایسی جماعت تحلیل ہو جائے گی۔
اس وقت وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ فارنگ فنڈنگ کیس کے حوالے سے بہت زیادہ خرابی ثابت بھی ہو جائے تو اس کی زیادہ سے زیادہ سزا الیکشن کمشن یہ دے سکتا ہے کہ ممنوعہ قرار دیے گئے فنڈز کو ریاست کی ملکیت قرار دے کر ضبط کر لیا جائے۔ پی ٹی آئی نے اگر اداروں کی جگہ غیر ملکی افراد سے فنڈز لئے ہیں تو اسے 2002ء PPO، کے آرٹیکل 6(3) کو مدنظر رکھتے ہوئے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ پی ڈی ایم کے ہاتھ اس بار بھی کچھ نہیں آئے گا۔