Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jahangir Tareen Kis Ka Asasa?

Jahangir Tareen Kis Ka Asasa?

برسوں پہلے فاخرہ بتول کا انٹرویو میری ساتھی بابری رضوی مرحومہ نے کیا۔ ہم نے فاخرہ کا شعر نمایاں طور پر شائع کیا:

میں نے سمجھا تھا سمندر تم کو

"تھا" کا مطلب تمہیں آتا ہو گا

مشتاق منہاس، اسلم ڈوگر اور وحید چودھری سے لے کر ہمارے سلیم ممتاز چودھری تک یہ شعر گنگناتے پھرتے۔ اسلام آباد جائوں تو آج بھی دوست اس شعر کو پڑھ کر "تھا" کی معنویت کو نئے پہلوئوں سے دریافت کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاست میں کب کوئی "ہے" سے "تھا" میں بدل جائے اس کی خبر کسی کو نہیں۔ کل تک جہانگیر ترین تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اس جماعت میں الیکٹ ایبلز کو بڑی تعداد میں جمع کرنا جہانگیر ترین کا کام ہے۔ جہانگیر ترین کامیاب کاروباری ہیں، انہوں نے سیاست کو کارپوریشن بنا کر جدت دی۔ ہر حلقے میں پارٹی ووٹ اور امیدوار کے ووٹ کا حساب کتاب کیا، تخمینہ لگایا کہ اپنا امیدوار اتارا جائے تو کہاں کہاں سرمایہ کاری امیدوار کو کامیاب کروا سکتی ہے۔ حساب لگانے کے بعد اپنے چنے ہوئے امیدواروں کو 2018کے انتخابات میں ٹکٹ دلانے کا مرحلہ تھا۔ یہ جو لوگ عدالتوں میں جہانگیر ترین کے ساتھ جا رہے ہیں وہی ہیں جن کو ٹکٹ دلائے گئے۔ لاہور سے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے متعلق میرا گمان رہا ہے کہ اسے عبدالعلیم خان کی سرپرستی حاصل ہے۔ جہانگیر ترین کی لگژری بس میں یہ ایم پی اے بیٹھا دیکھ کر دو خیال آتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اصل میں جہانگیر ترین کے لئے کام کر رہا ہے، دوسرا یہ کہ وہ ترین گروپ میں گھس کر معلومات حاصل کر رہا ہے۔

جہانگیر ترین کس کے مقاصد کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہی ان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ان کے واری صدقے ہو رہی ہیں۔ جس قدر جلد اصولی موقف پچھلے چھ ماہ میں ٹکڑے ہوئے ہیں، شاید ہی پہلے ایسا کبھی ہوا ہو۔ ایک بات جمعہ کو بری ہوتی ہے، ہفتے کے دن وہ اچھی قرار دیدی جاتی ہے، جو آج حلال ہے وہ کل حرام ہو جاتا ہے۔ جہانگیر ترین اے ٹی ایم تھے، جہانگیر ترین کے جہاز کے قصے تھے۔ جہانگیر ترین الہ دین کے چراغ کے وہ جن تھے جو تحریک انصاف کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لئے زور لگا دیا کرتے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن انہیں کیا کچھ نہیں کہتی رہی۔ لیکن اب ساری اپوزیشن جہانگیر ترین کے ساتھ ہے، ان کے موقف کو سراہ رہی ہے، احتساب کے عمل کو متنازع قرار دینے پر جہانگیر ترین کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔

جہانگیر ترین عدالت گئے، ان کے ساتھ تحریک انصاف کے بائیس اراکین پنجاب اسمبلی، آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور کچھ ٹکٹ ہولڈر تھے۔ جہانگیر ترین نے آصف علی زرداری سے رابطے کی بات ہنس کر ٹال دی، پھر کہا کہ انہیں دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا جا رہا ہے۔ جو خود نہیں کہہ سکے وہ راجہ ریاض کی زبانی کہہ دیا۔ ہمخیال اراکین سے اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کے لئے اجلاس بلا لیا، اجلاس کا نام کھانے کی دعوت رکھ دیا۔ کورونا کے ایام میں جب دو افراد ملنے سے گریز کر رہے ہیں تیس چالیس لوگ صرف کھانا کھانے جمع ہوں گے؟ مرکز میں عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لئے لگ بھگ اتنے ہی ووٹ درکار ہیں جتنے پنجاب میں عثمان بزدار کو رخصت کرنے کے لئے چاہئیں۔ جہانگیر ترین نے اپنے پتے شو کر دیے ہیں۔ ان کے ساتھ کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔ اگر یہ لوگ عثمان بزدار کو ہٹانے کی تحریک شروع کریں تو انہیں مسلم لیگ نون کی حمایت بلکہ اس کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے گا۔ وفاق میں حکومت کے لئے خطرہ بننے کے لئے اس گروپ کے اراکین کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والا پی ڈی ایم فعال ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نون کی صف دوم کی قیادت جہانگیر ترین سے رابطے کر رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس موقع کو استعمال کرنے کے لئے پہلے ہی پیش قدمی کر چکی ہے۔

جہانگیر ترین کے مطالبات کیا ہیں؟ جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ ان پر اور ان کے بیٹے پر عاید منی لانڈرنگ، فراڈ کے الزامات کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں، ان کا خیال ہے کہ انکوائری ٹیم ان کے متعلق تعصب رکھتی ہے اور کسی کی ہدایات پر سرگرم ہے، انہوں نے بہر حال اس شخص کا نام نہیں لیا جو فون پر ہدایات دیتا ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ کون کون ہے؟

راجہ ریاض، نعمان لنگڑیال، نذیر چوہان وغیرہ سمیت تیس کے قریب اراکین پنجاب و قومی اسمبلی ان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں، اندازہ ہے کہ کئی اراکین سامنے نہیں آرہے بوقت ضرورت ان کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ردعمل محتاط ہے، کسی رہنما نے جہانگیر ترین کے حوالے سے جارحانہ بیان دیا نہ تحریک انصاف کو ہدف بنا کر گولی داغی۔ مسلم لیگ نون کے مردہ تن میں ڈسکہ انتخاب نے تھوڑی سی حرارت ڈالی ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ، جہانگیر ترین، کے متعلق پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے عمران خان کی کرسی اب جہانگیر ترین کے ہاتھ میں ہے، دوسرا کہتا ہے حکومت گئی۔ ایک تیسری آواز احسن اقبال کی ہے۔ کہہ رہے ہیں جہانگیر ترین بزدار کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی مہرہ ہے۔

جہانگیر ترین کا معاملہ عمران خان، پی ٹی آئی اور قومی سیاست کے لئے حساس بنتا جا رہا ہے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کی دوستی رہی ہے، ہماری مقامی روایات میں دوستوں کے جائز ناجائز کام کی حمایت کو یار داری اور جی داری کا نام دیا جاتا ہے۔ عمران نے بلا امتیاز احتساب کی جو بات کی ہے وہ مقامی بیانیے سے ہم آہنگ نہیں اگرچہ قابل قدر ہے۔ ساتھیوں کو یہ گنجائش دینے کی روایت بند کر دی گئی تو ہماری جمہوریت بھی جوابدہ بن سکے گی۔ لیکن عمران کے لئے یہ دوست ماری کا طعنہ بنا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے لئے یہ معاملہ اس لئے حساس ہے کہ اس کی پنجاب اور مرکز کی حکومتیں ترین کے کروٹ لینے سے ختم ہو سکتی ہیں۔ پھر اصلاحات کے تمام منصوبے ختم۔ قومی سیاست پر اس کا اثر یہ ہو سکتا ہے کہ نوبت اسمبلیاں تحلیل کرنے تک جا سکتی ہے۔ جہانگیر ترین کو آہستہ آہستہ اپوزیشن کی حمایت ملنے لگے گی۔ رابطے بڑھ جائیں گے تب سب کو معلوم ہو جائے گا کہ "تھا" کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جہانگیر ترین کا گروپ کس کے مقاصد کے لئے کام کر رہا "تھا"۔