Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jung Ke Baad Muzakraat Ka Maiz Hazir Hai

Jung Ke Baad Muzakraat Ka Maiz Hazir Hai

جنگ کے بعد مذاکرات کے میز پر ہی بیٹھنا ہوتا ہے۔ ایک ناکام حکومت ہٹائو تحریک کے بعد ہیئت حاکمہ کا بیانیہ تسلیم کرنا بنتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد کا خیال تھا کہ لندن ان کی آئندہ سیاست کا مرکز بن سکتا ہے۔ ان کا یہ سوچنا غلط نہیں تھا۔ کئی علیحدگی پسند لندن میں رہ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بنانے کی تحریک لندن میں پروان چڑھی اور اس تحریک میں مددگار برطانوی رکن پارلیمنٹ کو بنگلہ دیش کی شہریت شکریہ کے ساتھ دی گئی۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے بعض رہنما لندن میں رہتے ہیں۔ الطاف حسین کو پاکستان اور اس کے مفادات پر حملے کرنے کے لیے پوری دنیا میں سب سے موزوں ملک برطانیہ اور سب سے مددگار شہر لندن ہے۔

لندن مفرور شخصیات کے لیے کیوں اہم رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے، ٹھوس اورجاندار۔ مفرور افراد کو ایسے شہر اور ملک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جہاں وہ ناجائز اور غیر قانونی ذرائع سے اکٹھی کی گئی دولت کو استعمال میں لا سکیں۔ بیمار نوازشریف کے کئی منصوبے تھے۔ پہلے انہوں نے کوششیں کی کہ ان ممالک کی مدد حاصل کی جائے جن سے ان کے دور اقتدار میں اچھے تعلقات رہے، ترکی اور سعودی عرب۔ پھر انہوں نے انسانی حقوق اور سیاسی انتقام کا بیانیہ گھڑ کر اپنے بیٹوں کے ہاتھ میں بٹھایا۔ سمدھی کے بیٹے اور کچھ ملازمین بھی اس بیانئے کو لندن میں مختلف جمہوری ریاستوں کے سفارت خانوں تک پہنچاتے رہے۔ ایک طریقہ یہ بروئے کار لایا گیا کہ بھارتی وزیراعظم سے رابطے کئے گئے۔ معلوم نہیں یہ بات کتنی سچ ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت ضرور ہے کہ مودی نوازشریف کی مدد کے حوالے سے بعض اہم ممالک سے سفارش کی۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب نوازشریف سے سخت ناراض ہے لیکن بھارت سے اچھے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر نوازشریف نے درخواست کی ہے کہ انہیں ایک بار پھر سرور پیلس کا مہمان بنا لیا جائے۔

نوازشریف دوبار عمران حکومت پر یلغار کر چکے ہیں، پہلا حملہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں دھرنے اور دوسرا پی ڈی ایم کی حالیہ جلسہ سیریز۔ لاہور کے جلسے نے مسلم لیگ ن کو تشویش میں مبتلا کردیا لیکن اسے اصل جھٹکا بے نظیر بھٹو کی برسی پر آصف علی زرداری کے بیانئے سے پہنچا۔ اس دن سے مریم نواز اور ان کے اردگرد کے لوگوں کے بیانات اور سرگرمیوں کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں، صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ صدمے سے دوچار ہیں۔ ایک مولانا ہیں جن پر اب سارا انحصار کیا جارہا ہے لیکن مولانا کی اپنی جماعت میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہے۔ نیب کی جانب سے سوالنامہ الگ پریشانی کا باعث ہے۔ مولانا بیانات کے ذریعے فوج کو مخاطب کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں لانگ مارچ کے شرکا جی ایچ کیو کی طرف جائیں گے، کبھی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماسرگرم کردار ادا نہ کرتے تو ملک میں امن نہ ہوتا۔ ان کی باتوں کا کوئی وزن ہوتا تو انہیں جواب دیا جاتا۔

مسلم لیگ ن کو آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کا احسان مند ہونا چاہیے جنہوں نے اس جماعت کو بچا لیا۔ ن لیگ نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا سوچا تو بے نظیر بھٹو نے میاں نوازشریف کو جمہوریت کا سبق پڑھایا۔ اب مریم نواز اور نوازشریف نے ایک بار پھر ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا عندیہ دیا تو آصف علی زرداری نے ایسا کرنے سے روکا۔ آصف زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم سے بھی کچھ سیکھ لو۔ مریم نواز بھلا کب سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد مبلغ چند طعنوں، کوسنوں اور بددعائوں پر مشتمل ہے۔

سیاسی محاذ پر ایک اور پیشرفت ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی اور حکومت کے مابین کوئی سودے بازی ہوئی ہے۔ مبصرین کو ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا کہ ڈیل کیا ہے۔ ہمارے ایک خیرخواہ نے زبان کھولی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف انداز میں کرانے کا سوچ لیا گیا ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی صرف دیہی سندھ کی سیٹوں سے وفاق میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ ن کو وسطی پنجاب میں 50 فیصد نشستیں مل سکتی ہیں لیکن جنوبی پنجاب اور بالائی پنجاب میں اس کا صفایا ہو سکتا ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف سے جو نشستیں بچیں گی ان پر اے این پی، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام دعویدار ہوں گی۔ ن لیگ کو چار پانچ نشستیں ہی مل جائیں تو بہت ہوگا۔ اس صورت حال میں ممکن ہے بدلائو آئے اور ن لیگ یا پیپلزپارٹی کو پورے ملک سے حکومت سازی کا مینڈیٹ مل جائے تاہم اس بات کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔

پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ جمہوری روایات کا احترام کریں گے، حکومت کو مزید وقت دیں گے اور انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے سینٹ و ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں گے۔ اتنی ساری گولہ باری کے بعد تمام فریق میز کے قریب آ گئے ہیں۔ محمد علی درانی نے مولانا اور شہبازشریف کو سمجھا دیا ہے کہ سیاست کے اصولوں کی پابندی کریں ورنہ میز پر بیٹھنے کی مہلت ختم ہو سکتی ہے۔ پھر معلوم نہیں کون سا نظام ہو، کون سے لوگ ہوں اور کون سے ادارے ہوں۔ ممکن ہے ایسے ناخواندہ لوگ آ جائیں جو کسی بیانئے کو تسلیم ہی نہ کرتے ہوں۔