حالیہ دنوں پاکستان نے او آئی سی کی جانب سے اقوام متحدہ میں اسرائیل مخالف ایک قرارداد پر قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس قرارداد کی روشنی میں انسانی حقوق کونسل نے انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انکوائری کمیشن اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ اسرائیل منظم طور پر کس طرح فلسطینیوں سے ناانصافی کر رہا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان نے فلسطینیوں پراسرائیل کے حالیہ حملوں پر جس طرح سرگرم کردار ادا کیا اور او آئی سی پر اسرائیل کے خلاف سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے جو دبائو ڈالا اس سے اسرائیل نے پہلی بار پاکستان کے بارے میں شدید ردعمل دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ایلن شپز کا کہنا ہے کہ "پاکستان درحقیقت کانچ کے محل میں رہ رہا ہے لیکن مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں سرگرم ہے۔" صرف یہی نہیں اسرائیلی ڈائریکٹر جنرل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکہ کی تیار کی گئی ایک رپورٹ کا لنک بھی ٹویٹ کیا ہے۔
آنجہانی رابرٹ فسک نے فروری 2019ء کو برطانیہ کے معروف اخبار انڈیپنڈنٹ میں ایک مضمون لکھا۔ یہ بالا کوٹ کے قریب بھارتی طیاروں کی کارروائی کے بعد لکھا گیا۔ مضمون نگار رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ تل ابیب میں اسرائیلی وزارت دفاع کا دفتر نئی دہلی میں قائم بھارتی وزارت دفاع کے دفتر سے اڑھائی ہزار کلومیٹر دور ہے۔ اسرائیل کافی عرصے سے بھارت کی قوم پرست جماعت بی جے پی کے ساتھ مل کر اینٹی اسلام اتحاد مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔ رابرٹ فسک کے بقول بالا کوٹ کارروائی میں بھارتی پریس نے خبر دی کہ انڈین ایئر فورس نے اسرائیلی ساختہ سمارٹ بم رافیل سپائس 2000 کا استعمال کیا۔ بھارتی دعوئوں کو سچ مان لیا جائے تو اسرائیلی بموں سے پاکستان میں جیش محمد کے 300 سے 400 تک عسکریت پسند مار دیئے گئے۔
اسرائیل نے بھارتی سپیشل کمانڈوز کو اپنے صحرائی علاقے میں تربیت فراہم کی۔ اس تربیت میں غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں سے حاصل تجربے کو بنیاد بنایا گیا۔ اس تربیت میں 16 کمانڈوز شریک ہوئے۔ 2018ء میں نریندر مودی جب اسرائیل گئے تو وزیراعظم نیتن یاہو نے ان کی فرمائش پر ممبئی حملوں کی مذمت کی۔ خود بھارت میں بعض حلقے اس بات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بنیاد صیہونیت اور دائیں بازو کی قوم پرستی نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات پر تحقیق کرنے والی خاتون سکالر شیری ملہوترہ کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے یہ بیانیہ تراشا ہے کہ تاریخی طور پر مسلمانوں نے ان کا استحصال کیا ہے۔ بھارت میں انٹرنیٹ پر حالیہ دنوں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کی ستائش کی جاتی رہی۔ بی جے پی کے حامی ٹرمپ اور نیتن یاہو سے محبت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ وہ مسلم دشمن ہیں۔ کارلٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ویویک ہیجیا یہ تجویز دے چکے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو اسلامی دہشت گردی کے خلاف ایک سہ فریقی اتحاد بنا لینا چاہیے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے نہتے باشندوں پر فاسفورس بم استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اسے اسرائیل نے دی ہے۔
پاکستان سوشل سائنسز ریویو جون 2019ء کے شمارے میں ایسے بعض حقائق پیش کئے گئے ہیں جن سے اسرائیل کی پاکستان میں شرپسندی کاپتہ چلتا ہے، اس شمارے میں بتایا گیا کہ اسرائیلی موساد اور بھارت کی را نے پاکستان کا راستہ روکنے کے لیے چار نئی ایجنسیاں بنانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے طے کیا کہ پاکستان کی مذہبی شخصیات، صحافیوں، ججز، وکلا اور بیوروکریٹس پر حملے کئے جائیں۔ یہ سکیم بھی طے کی گئی کہ اہم مقامات کے قریب بم نصب کئے جائیں۔ 2001ء کی تیار کی گئی اس منصوبہ بندی میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
21 مئی 2021ء کو بلوچستان کے علاقے چمن میں فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں بم دھماکہ ہوا اور متعدد افراد جاں بحق و زخمی ہوئے۔ یہ ایک پیغام تھا۔ جون 2015ء میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ بلوچستان کے بعض پاکستان مخالف افراد نے اسرائیل سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ہمارے ہمسائے کے منصوبوں میں شراکت داری پر پاکستان کے لیے اسرائیل کو صرف فلسطین کے پہلو سے دیکھنا کافی نہیں رہا۔ دوسری طرف پاکستان نے مغربی ممالک کی دوہری پالیسیوں پر واضح موقف اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان اپنے اردگرد پھیلتے جال کو دیکھ کر خاموش رہے۔ ہر جگہ ہتھیاروں سے ردعمل نہیں دیا جاتا۔ پاکستان نے اسرائیل کے متعلق جو سخت رویہ اختیار کیا ہے وہ اسی تناظر میں ہے۔ دوسری طرف یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ معاشی مجبوریوں میں گرفتار پاکستان سلامتی کونسل کے لاڈلے کے خلاف کس حد تک جا سکتا ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیمیں ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فنڈز فراہم کرنے والی اکثر تنظیموں میں یہودی مالدار افراد یا امریکی انٹیلی جنس کا پس منظر رکھنے والے بورڈ آف گورنرز میں موجود ہیں۔
آج کی دنیا مختلف انداز میں کام کرتی ہے، جن کا میڈیا پر کنٹرول ہے، آزادی اظہار کی بات بھی وہی ڈیپ پاکٹس کرتے ہیں۔ پاکستان میں معاملات کو قانون کی بجائے طاقت سے حل کرنے کی روش نے زخمیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ ممکن ہے زخمیوں کو سودا کرنے والوں کا پتہ نہ ہو لیکن کوئی ضرور آگ پر تیل چھڑک رہا ہے۔ اب اس معاملے کو آزادی اظہار سے جوڑا جارہا ہے، کچھ سمجھے؟