بھارت نے امریکہ سے ایک سیٹلائٹ ٹیکنالوجی تک رسائی لی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ پریشان کن ہے کہ پاکستان کی حساس تنصیبات اور سرحدوں پر ہونے والی ذرا ذرا سی سرگرمی امریکہ کے ذریعے بھارت تک پہنچ جائے گی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے سوایہ سیٹلائٹ مانیٹرنگ اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کسی ملک کے پاس نہیں۔ رافیل طیاروں کے بعد بھارت نے یہ دوسری ٹیکنالوجی حاصل کی ہے جو پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ بھارت نے جنگ کی تیاری ہی پر زور نہیں دیا بلکہ اسرائیل سے دنیا کی جدید ترین زرعی ٹیکنالوجی حاصل کر کے اپنی سوا ارب آبادی کی بھوک مٹانے کا چارہ بھی شروع کردیا ہے۔ ہمارے ہاں ریلوے ایک ناکام ترین ادارہ ہے مگر بھارت میں روزانہ کروڑوں لوگ ریل سے سفر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹین کے ڈبے جیسی کار دس بارہ لاکھ کو پہنچ گئی ہے۔ بھارت میں وہی کمپنی پانچ لاکھ میں کار بنا رہی ہے۔ ہم بہت سے شعبوں میں، صلاحیتوں میں بھارت سے برتر ہوں گے لیکن ہم اور ہمارے سرکاری نظام کی رگوں میں وطن سے بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مشروبات سے لے کر صنعتی پیداوار اور زرعی ادویات بنانے تک کے مقامی اداروں میں ایک ایسی تاجرانہ سوچ گھس گئی ہے جو ملکی استحکام کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
ایک ادارہ ہے جو کمیونیکیشن سیٹ تیار کرتا ہے۔ اس ادارے نے سرکار کی طرف سے مینو فیکچرنگ کے لیے فراہم تمام تکنیکی اور مالی وسائل کے باوجود دوسرے ملک سے آلات منگوا کر ان پر اپنی مینوفیکچرنگ پلیٹ چسپاں کرنے کا کام شروع کر رکھاہے۔ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کے خلاف کام کر رہا ہے لیکن سب خوش ہیں۔
ہمیں توقع نہ تھی کہ فواد چودھری بھی اس طرح کا کام کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے سخت مایوس کیا۔ کینیڈا میں ایک بزرگ میڈیکل سائنسدان رہتے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب۔ کینیڈا میں کئی طبی آلات ڈاکٹر نجیب کے تیار کردہ اور ان کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ وزیراعظم نے کورونا کے انسداد کے لیے وینٹی لیٹر کی تیاری کا حکم دیا۔ ڈاکٹر نجیب کو ملک سے محبت کا واسطہ دے کر لایا گیا۔ انہیں وینٹی لیٹر والی ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ وہ بہت خوش تھے کہ آخر ان کے وطن میں عام آدمی کی ضروریات پر توجہ دی جانے لگی ہے، پھر نظام میں لگی دیمک اثر دکھانے لگی، ڈاکٹر نجیب اس قدر مایوس ہوئے کہ واپس چلے گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے مقامی سطح پر تیار جس وینٹی لیٹر کا افتتاح کر کے قوم کا مورال بلند کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ ترکی کا بنا ہوا ہے، پاکستان کے تیار وینٹی لیٹر این ڈی ایم اے کے سٹور میں پڑے ہیں۔ یہ وینٹی لیٹر اسی سٹور میں پڑے پڑے گل جائیں گے کیونکہ یہ ایک بھی ٹیسٹ پاس نہیں کرپائے۔
پشاور میں جب بی آر ٹی منصوبے کا اعلان کیا گیا تو ہمارے ایک دوست نے صوبائی حکومت کو الیکٹرک بسیں چلانے کی پیشکش کی۔ اس پیشکش کو نظر انداز کر کے ایک دوسری کمپنی سے ڈیزل ہائبرڈ بسیں لے لی گئیں۔ آپ سمجھ لیں یہ ایسا ہی معاملہ ہے کہ آپ گھر میں لوڈشیڈنگ کی صورت میں سارا وقت بجلی دستیاب رکھنے کے لئے ایک جنریٹر خرید کر یہ سمجھنے لگیں کہ بجلی کا بل کم آئے گا۔ ہائبرڈ بسوں میں بڑی بڑی بیٹریاں نصب ہوتی ہیں، بسوں میں آگ لگنا اسی ڈیزل ہائبرڈ ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے۔ کچھ نیا کرنے کے شوق میں ایسا نقصان کر لیا گیا جس پر قابو پانے کے لیے ہر ہفتے نیا خرچ نکل رہا ہے۔
امریکہ نے افغان جنگ کے دوران اربوں ڈالر کی خطیر رقم سے F38 لڑاکا طیارہ بنایا۔ امریکی ایئر فورس نے کہہ دیا کہ انہیں اس ہائی ٹیک طیارے کی ضرورت نہیں، انہیں بندوق بردار طالبان سے مقابلے کے لیے عام سے کم صلاحیت والے طیارے کافی تھے۔ ایئرفورس کے انکار کے بعد حکومت نے منصوبہ بند کرنے کا فیصلہ کیا تو کانگرس نے طلب کرلیا۔ حکومت نے بتایا کہ اس طیارے پر اس قدر لاگت آئی ہے کہ چند طیارے بنتے تو تیار کرنے والی کمپنی دیوالیہ ہو جاتی۔ پھر اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی کا استعمال میں ضرورت کی چیزیں خود بنانا قوموں کی خود مختاری اور آزادی کی دلیل ہے۔ ہمیں دھوکہ دیا جاتا ہے کہ مقامی مینو فیکچرنگ مہنگی ہے اس لیئے چین سے خرید لو۔ ایسے سر جھکتے ہیں اٹھائے نہیں جا سکتے۔ اب آ جائیے اس طرف کہ ترکی پوری دنیا کو آنکھیں کیوں دکھا رہا ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ترکی نے اپنی بندوقوں کی گولیاں، اپنی توپوں کے گولے، اپنے حساس آلات کے پرزے خود بنانے کے لیے پچھلے دس سال میں بہت محنت کی۔ خود انحصاری ریاستوں کو طاقتور بناتی ہے۔ ہمارے ہاں اپنے مینو فیکچرنگ اداروں کی پیداوار بڑھانے کے لیے حوصلہ افزا ماحول پیدا کیا گیاہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ جہاں ہر پیداواری ادارے کو تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ چلایا جائے گا تو ریڈی میڈ اشیا اور اپنی تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ کر کے آرڈر دوسروں کو دیئے جائیں گے۔ اس صورت میں وہ لوگ حقیر بن جائیں گے جو اپنی پیداوار کے حق میں ہوں گے۔
اس وقت چین ہماری کئی ضروریات پوری کر رہا ہے لیکن کیا چینی ٹیکنالوجی امریکہ، اسرائیل اور فرانس کی ٹیکنالوجی کو ٹکر دے سکتی ہے؟ جو اس پر ہاں کہہ رہے ہیں ان کو سلام۔ خود کفالت کا مطلب اپنی کوششوں اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہے۔ دوسروں کی مدد ہر وقت میسر نہیں ہوتی پھر اس مدد کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ خود کفیل ہوں تو خالی جیب اپنے ہنر پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان اربوں ڈالر چھوٹی چھوٹی، معمولی سمجھی جانے والی چیزوں اور مشینری پر خرچ کر دیتا ہے، کچھ آزادی قرضوں کے عوض رہن رکھ دی، اب کون ہمیں احترام دے گا۔