مسلم لیگ ن کے دوستوں کو مبارک ہو، محترمہ مریم نواز اور نوازشریف نے فون کر کے کھوکھر برادران کی جمہوری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد اور نائب صدر کو دکھ ہے کہ جمہوری جدوجہد کرنے والے کھوکھر برادران کے غیرقانونی قبضے سے 38 کنال قیمتی اراضی واگزار کروا کر سرکار نے اپنی تحویل میں کیوں لی۔ یادش بخیر اب تو شاید توبہ تائب ہو گئے ہوں، مسلم لیگ ن کا ایک اہم کردار سہیل ضیا بٹ رہے ہیں۔ کوٹ لکھپت میں استاد یونس چوہدری مسٹر پاکستان نے باڈی بلڈنگ کا کلب بنارکھا تھا، میں سکول میں تھا جب ان کی شاگردی میں آیا۔ ہمارے ہیلتھ کلب کے دو سینئر نوجوانوں کو ورغلا کر سہیل ضیا بٹ نے بدمعاشی پر لگا دیا۔ شاہد میو اور عامر بٹ جلد ہی لاہور کے ٹاپ ٹین میں آ گئے۔ نوازشریف کے ایک چچا زاد بھائی کو بھی بدمعاشی کا شوق ہوا۔ اتفاق فائونڈری کے قریب ڈیرہ بنا لیا۔ یہاں مشکوک لوگ آتے، شاید اس کی وجہ سے خود شریف برادران بھی پریشان تھے۔ امیر زادہ کسی معاملے پر ان دونوں سے الجھ پڑا۔ پٹائی ہونے پر فریاد لے کرشریف برادران کے پاس گیا۔ وقفے وقفے سے دونوں مار دیئے گئے اورشہر کو بدمعاشوں سے پاک کرنے کے بیانات جاری ہوئے۔ سہیل ضیاء بٹ نے کوٹ لکھپت، ماڈل ٹائون، قینچی امرسدھو اور ٹائون شپ کے علاقوں میں پوری ایک نسل بدمعاش بنائی۔
حالیہ دنوں لاہور میں ات مچانے والے بدمعاشوں، بھتہ خوروں اور قبضہ گیروں کی فہرست سامنے آئی ہے۔ اس میں کچھ لوگوں سے میں واقف ہوں۔ خالد میو اور جمیل میو پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے شاہد میو کے بھائی ہیں، کچھ عرصہ جم میں خالد اور میں ٹریننگ پارٹنر رہے ہیں۔ اس فہرست میں باڈی بلڈنگ میں میرا ایک شاگرد نوید عرف کاکا لوہار بھی ہے۔ نوید ایک محنت کش اور شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ محلے میں کچھ ٹیڑھے لوگوں سے متھا لگا بیٹھا۔ جھگڑوں نے اس کے طاقتور جثے کو راہ دکھائی کہ لوگ خوفزدہ ہو کر غریب آدمی کی بھی عزت کرتے ہیں، چاہے منہ پر ہی سہی۔ اسے پولیس کے رویے نے بدمعاش بنا دیا۔ مجھے افسوس رہے گا کہ اس کی مدد نہ کر سکا۔ ہربنس پورہ میں صحافی کالونی کے پلاٹوں پر غیر قانونی قابضین کا گروہ ہے جسے کوئی طاقت ختم نہیں ہونے دیتی۔ فہرست میں ایک کردار مولوی عبدالعزیز ہے۔ گرین ٹائون میں سرکار کی کئی ایکڑ اراضی پر مولوی عبدالعزیز پچھلے بیس سال سے قبضے کروا رہا ہے۔ کئی کنال پر مشتمل دو منزلہ دینی مدرسہ بنا رکھا ہے، اپنی طاقت بڑھانے کے لیے جے یو آئی ف کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، حافظ طاہر اشرفی کو جمعہ کے خطاب اور اسناد کی تقسیم کے لیے کئی بار بلا چکا ہے۔ پولیس اور زمین کے مالک محکمے کیوں اس کے خلاف کارروائی نہیں کرتے؟ اس فہرست سے پتہ چلا کہ چونگی امر سدھو میں 25 سے 30 جیب تراشوں کا اڈہ ہے۔ یہ اڈہ چلانے والے بدمعاش ڈکیتیوں، فراڈ اور لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہیں۔ یہاں ایسا گروہ بھی ہے جو رکشوں ویگنوں سے بھتہ لیتا ہے۔
ایجنسیوں کی فہرست بتاتی ہے لاہور میں 238 خطرناک بدمعاش، بھتہ خور اور شہریوں کی املاک پر قبضہ کرنے والے افراد کھلے عام قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ سٹی ڈویزن میں 53، اقبال ٹاون ڈویزن میں 24 سول لائنز ڈویزن میں 13، صدر ڈویزن میں، 25کینٹ ڈویزن میں 109اور ماڈل ٹاون ڈویزن میں 14خطرناک بدمعاش گروہ بنا کر سرگرم ہیں۔ ان میں سے 30 کے لگ بھگ ایسے بدمعاش بھی ہیں جن میں سے ہر ایک پر اوسطاً پندرہ ایف آئی آر درج ہیں۔ اس صورت میں پولیس اپنے فرائض کس ایمانداری سے انجام دے رہی ہے اس کا مظاہرہ سوموار کے روز سمسانی جوہر ٹائون میں کھوکھر پیلس میں شامل غیر قانونی زمین واگزار کرانے کے لیے گئے پولیس اہلکاروں، ضلعی انتظامیہ اور دوسرے سرکاری ملازمین کی بریانی سے دعوت بتاتی ہے۔ کھوکھر پیلس سے ان سب کے لیے بریانی آئی اور ڈی آئی جی کی موجودگی میں پولیس فورس نے ملزمان کی بریانی اڑا کر ریاست کی عزت پر داغ لگا دیا گیا۔
بدمعاشوں کی فہرست میں جتنے نام ہیں شہر کے لوگ ان سے واقف ہیں، جو فہرست میں شامل نہیں ان کی تعداد تین گنا ہو گی۔ اس فہرست میں ایک مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک کا نام نہیں، اس فہرست میں ان پولیس والوں کا نام نہیں جنہوں نے قبضہ گروپ بنا رکھے ہیں، اس میں کئی ایسے جعلی وکیلوں کے نام نہیں جو قبضہ کرتے اور کراتے ہیں، اس میں میڈیا کے ان لوگوں کا نام نہیں جو قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ بدمعاش اس وقت ایک عزت دار بہادر سمجھا جاتا تھا جب وہ غیر ملکی حاکموں کو چیلنج کیا کرتا۔
بدمعاش اس وقت ذلیل ہو گیا جب اس نے راہگیروں، غریبوں اور بے سہارا افراد پر ظلم کیا۔ گوالمنڈی ہو، کاہنہ ہو، کوٹ لکھپت ہو یا شاہدرہ، بدمعاش کسی نہ کسی کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔ لاہور پر تین عشروں تک ن لیگ کی حکومت رہی۔ ایم ایس ایف، مسلم لیگ لیبر ونگ، نواز شہباز اور پھر حمزہ یوتھ فورس نے کن لوگوں کو ابھارا۔ کالجوں میں بدمعاشی کرنے والے آج بھی ن لیگ کے اہم عہدیدار ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار بھرتی کیا گیا۔ اب یہ سب جرائم کے سرپرست بن گئے ہیں۔ لاہور اپنے علم پرور ماحول، تاریخ، مکالمے اور کشادہ ظرفی کی وجہ سے مشہور تھا، اب یہاں سیاسی سرپرستی میں بدمعاش اور جرائم پیشہ گروہ پرورش پاتے ہیں، کیا کوئی بتا سکتا ہے یہ بد معاش کیسے طاقتور ہوئے، ان کی سرگرمیوں کے سامنے قانون عاجز کیوں ہوا اور پچھلی حکومتوں کے اس بوجھ کو ختم کرنے کے لئے موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ گندی سیاست نے میرا لاہور غیر محفوظ بنا دیا۔