ستر برس کی ثمینہ احمد اور منظر صہبائی سے پہلے ایک سو برس کے یاور عباس اور نور ظہیر بتا چکے ہیں کہ محبت وجود کی نہیں روح کی ضرورت ہے۔ یہ مشہور لوگ ہیں۔ اخبار میں ایسی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ ستر سال کی اماں برکتے نے 75 سال کے بابا رحمت کے ساتھ شادی کرلی۔ سفید بالوں، اکھڑے ہوئے دانتوں اور عام سے لباس میں چارپائی پر یہ جوڑا اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے گھیرے میں بیٹھا تصویر بنوارہا ہوتا ہے۔ پس منظر میں کچے پکے مکان کی دیوار یا کوئی پیڑ جھانک رہا ہوتا ہے۔
ایک کہانی ہے سچی۔ ہمارے ہمسائے ملک کی، الوک 25 سالہ نوجوان ہے۔ وہ تیزاب سے جھلسائی گئی خواتین کی بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کی این جی او ایسی خواتین کا ڈیٹا جمع کر کے ان کو سماج میں ایک بار پھر متحرک کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک لڑکی لکشمی سے ہوئی۔ لکشمی کی کہانی یہ ہے کہ وہ جب پندرہ برس کی تھی تو ایک لڑکے نے اسے یکطرفہ محبت قبول نہ کرنے پر تیزاب سے جلا دیا۔ لکشمی کی آنکھیں محفوظ رہیں تاہم چہرے کا ایک حصہ اور گردن متاثر ہوئے۔ الوک نے محسوس کیا کہ لکشمی نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ چہرے کوچھپانے کی بجائے بلاخوف و شرمندگی باہر آتی جاتی ہے۔ وہ زندہ دل ہے اور زندگی کی تمام سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہے۔ الوک کو لگا کہ تیزابی ظلم کا شکار خواتین کو ایسا ہی باہمت اور زندہ دل ہونا چاہیے۔
یہ خوبی اسے متاثر کرنے لگی اور پھر دونوں نے شادی کرلی۔ دونوں اب مل کر اپنے بچے اور این جی او کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ محبت کس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہے اس کا پتہ اس امر سے لگتا ہے کہ شادی کے وقت چونکہ دلہن مرکز توجہ ہوتی ہے، سب اس کے نین نقش، میک اپ، لباس اور شخصیت پر نگاہ جمائے رکھتے ہیں اس لیے دونوں نے فیصلہ کیا کہ شادی کی تقریب میں کسی مہمان کو دعوت نہیں دی جائے گی۔
ایک سچی کہانی امریکہ سے ہے۔ ایک مسلمان خاندان کا نوجوان تین افراد کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ سلیمان اپنے گھر جا رہا تھا کہ اسے گولی مار دی گئی، قاتلوں نے اس کی جیب سے رقم نکالی اور وہ اپنی بیوی کے لیے جو کھانا لے کر جا رہا تھا اسے بھی اچک لیا۔ پولیس نے قاتلوں کو پکڑ لیا۔ وہ مقتول کی عمر کے ہی تھے۔ مقتول کی ماں رقیہ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ گولی مارنے والے لڑکے سے ملنا چاہتی ہے۔ عدالت کی اجازت سے رقیہ آگے بڑھی اور قاتل کو گلے لگا لیا۔ اس نے قاتل کی ماں کو بھی گلے لگایا اور بولی، "میں تم لوگوں سے نفرت نہیں کرتی۔
میں نفرت کر ہی نہیں سکتی۔ یہ ہمارا شیوہ نہیں۔ اللہ نے ہمیں عفو اور درگزر کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ قاتل ابھی تک ایک بچہ ہے۔ سلیمان کی موت اس کا مقدر تھی۔ شاید اس کا مقصد قاتل کی جان بچانا ہو تاکہ قاتل اس بے رحم سماج کے ہاتھوں اس طرح نہ مارا جائے جس طرح میرا بیٹا سلیمان مارا گیا۔
میرا خاندان اس بات کا شدید آرزو مند ہے کہ ہم قاتل کے خاندان سے جڑے رہیں تاکہ اس کا خاندان برباد نہ ہو۔ ہماری زندگی بہت سے لوگوں اور خاندانوں کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ بدلہ مسائل کو حل نہیں کرتا، انتقام میرے بیٹے کو واپس نہیں لا سکتا۔" اس کے متاثر کن الفاظ پر قاتل رحمان نے اس سے روتے ہوئے معافی طلب کی۔ رقیہ جیسا حوصلہ ہم میں نہیں، ہم شاید اس حد تک انسانوں سے محبت نہیں کرسکتے کہ اتنا بڑا گھائو لگانے والوں کو معاف کردیں مگر ہم رقیہ کے دل میں خدا اور انسانوں کے لیے موجود محبت کی شدت جاننے سے عاجز ہیں۔
محبت احساس تحفظ ہے، جو لوگ دولت کی محبت میں پاگل ہوتے ہیں وہ بینک اکائونٹ بھرتے ہیں۔ محل بناتے ہیں، بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں، شہر کی سب سے عالیشان عمارت کے مالک بننا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو انسانوں سے محبت ہوتی ہے وہ آلودہء خاک اور راستوں پر پڑے لوگوں کو مہمان بناتے ہیں، ان کا منہ اپنے ہاتھوں سے دھوتے ہیں۔ ان کو صاف لباس دیتے ہیں، ان کو کھانا کھلاتے ہیں۔
محبت کا جذبہ دو لوگوں کو جوڑتا ہے۔ یہ جادو اثر ہے، محبت وعدہ کرتی ہے کہ جب لوگ اس سے وابستہ ہوں تو اچھی چیزیں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ محبت ایک یقین ہے۔ یاور عباس ایک سو برس کے ہیں۔ نور ظہیر 75 برس سے زائد کی ہیں۔ کچھ ماہ پہلے ثمینہ احمد اور منظر صہبائی کی تصویر دیکھی، چند روز ہوئے ان کی تازہ تصویر دیکھی، ایک دوسرے سے جڑے محبت بھرے تاثرات وہی تھے، اسی طرح کا لگاو، کیسا اطمینان جھلک رہا ہے۔
یہ خالص محبتیں ہیں، ان کو ہوس زدہ خیالات سے نہیں ملایا جاسکتا۔ ان چہروں پر درویشوں جیسا اطمینان ہے۔ یہ اطمینان پتہ دیتا ہے کہ مجاز سے حقیقت کا سفر شروع ہو گیا ہے۔ ہم سب کسان ہیں، ہر روز ایک فصل کاشت کرتے ہیں، پھر اسے کاٹتے ہیں، جو بوتے ہیں وہی کاٹ لیتے ہیں۔
اگر کچھ وقت نکال کر حساب کریں تو جان جائیں گے ہم شر بو کر امن کی امید لگائے بیٹھے ہیں، نفرت بیجتے ہیں سارا دن، سیاست ہمارا اجتماعی کھیل ہے، اس کھیل کے اصول طے کیئے بنا ہم کیسے کھیل سکتے ہیں، بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم خود نہیں جانتے کہ کامیابی کا معیار صرف پیسہ کمانے کے قابل بنانا ہے یا انسانی تاریخ، اقدار اور محبت کو آگے منتقل کرنے کی صلاحیت سے آراستہ کرنا۔ محبت فاتح عالم ہے، ہم بھول کیوں گئے۔