سینیٹ امیدواروں کو دیکھ کر تفصیلی تجزیہ کیا جا سکتا ہے جو اگلے کالم میں پیش خدمت ہو گا، پہلے کچھ دانشورانہ افکار پڑھ لیں پھر آگے بڑھیں گے۔
ہم جمہوریت پر بہت بحث کرتے ہیں۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ میری جہالت اور آپ کا علم و فضل تولنے میں برابر ہیں۔ ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ جمہوریت کے خلاف سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ اوسط درجے کی فہم رکھنے والے ووٹر سے جمہوریت کے متعلق پانچ منٹ تک تبادلہ خیال کیا جائے۔ اگر آپ کسی ایسے جمہوری نظام میں جی رہے ہیں جہاں دو پارٹی سسٹم ہے اور آپ دل شکستہ و مایوس ہیں تو دونوں جماعتیں چاہیں گی کہ آپ اپنے کان اور زبان بند رکھیں اور انتخابی عمل سے دور رہیں تاکہ ان کی حیثیت مضبوط رہے۔ ابراہام لنکن کہا کرتے تھے کہ انتخابات کا تعلق عوام سے ہے۔ یہ عوام کا فیصلہ ہے، اگر عوام آگ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا چاہتے اور اپنی پشت کو جھلسانا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیا جائے۔
سینٹ کے لئے تینوں بڑی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی فہرستیں جاری کر دی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اس بار خریدوفروخت کے الزامات کے بیچ ان لوگوں کو امیدوار نامزد کیا ہے جنہیں دیکھ کر مستقبل کی سیاست کا کچھ نقشہ سامنے آتا ہے۔ سب شطرنج پہ اپنے مہروں کی جگہ تبدیل کر رہے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کے انکار پر بلاول بھٹو زرداری نے خود انہیں سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے راضی کیا۔ یوسف رضا گیلانی کیوں راضی نہیں تھے؟ اس کا جواب شاید جلد نہ مل سکے۔ انہیں سینٹ کے اکھاڑے میں پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار بنا کر اتارا گیا ہے۔ نون لیگ کی خواہش تھی کہ پی ڈی ایم بطور اتحاد سینٹ انتخابات میں اپنی شناخت قائم کرے۔ مسلم لیگ نون پنجاب اور پیپلز پارٹی سندھ میں ایک دوسرے کو گنجائش دینے پر آمادہ نہ ہو سکیں۔ یوسف رضا گیلانی عجیب محسوس کرتے ہوں گے کہ جس جماعت نے انہیں بطور وزیر اعظم عدالت سے نااہل کروایا اب اس کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان کے تائید کنندہ بن کر فارم جمع کروا رہے تھے، بہرحال پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کے ذریعے سینٹ الیکشن کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
نون لیگ نے سیف الملوک کھوکھر، عرفان صدیقی، بلیغ الرحمان، سائرہ تارڑ اور زاہد حامد کو پنجاب سے ٹکٹ دیے ہیں، یہ سب وہ لوگ ہیں جو شہباز شریف سے زیادہ مریم نواز کے قریب سمجھے جاتے ہیں، حتیٰ کہ جمعیت اہلحدیث کے سربراہ ساجد میر کو بھی ٹکٹ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ وہ پچھلے چند ماہ سے مریم کے ساتھ کچھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ سیاسی سیانے کہہ رہے ہیں کہ ساجد میر اب کوئی اور خدمت تو ممکن ہے بجا لائیں، سعودیہ والا مشن ناممکن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف برسر اقتدار ہے۔ حکومتی جماعت کے طور پر یقینا بہت سے حلقوں اور گروپوں کا دبائو رہاہو گا کہ ان کے لوگوں کو ٹکٹ دیے جائیں۔ اچھا کام یہ ہوا کہ پارٹی نے اپنی ضرورت کو مدنظر رکھ کر امیدواروں کا انتخاب کیا۔ بیرسٹر علی ظفر، ڈاکٹر زرقا، ثانیہ نشتر اور سیف اللہ نیازی سینٹ میں جا کر تحریک انصاف کی طاقت بنیں گے۔ سیف اللہ نیازی تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر ہیں، گلگت بلتستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں وہ اپنی صلاحیتوں کو منوا چکے ہیں۔ میں نے سیف اللہ نیازی سے پوچھا کیا سینٹ میں اکثریت حاصل کر کے تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبہ، بعض اہم آئینی ترامیم اور انتخابی اصلاحات کے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کرے گی۔ سیف اللہ نیازی نے بتایا کہ تحریک انصاف اپنے ووٹروں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہتی ہے تاہم یہ وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں اس کا انحصار ایوان بالا میں پی ٹی آئی کی نشستوں پر ہے۔ میں نے پوچھا عمر سرفراز چیمہ کے ساتھ پارٹی کا کوئی مسئلہ ہے جو انہیں کسی دوسرے عہدے کے قابل نہیں سمجھا جا رہا، حتیٰ کہ سینٹ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ سیف اللہ کا جواب تھا کہ یہ پارٹی فیصلہ ہے۔
اب ذرا تجزیہ کر لیجیے کہ مسلم لیگ نون نے اپنے چیئرمین راجہ ظفر الحق کو ٹکٹ کیوں نہیں دی۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کو بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر شاید فوج کے ساتھ شریف خاندان کے معاملات درست نہ کروا سکے اس لئے اپنی تمام تر وفاداری کے باوجود انہیں ٹکٹ نہیں دیا جا رہا۔ مسلم لیگ نے جو ٹیم میدان میں اتاری ہے وہ نواز شریف کی وفادار اور جنگجو ہے۔ مطلب یہ کہ سینٹ میں نون لیگ خود کو ایک سرگرم کردار کے لئے تیار کر رہی ہے۔ اسی ٹیم کے ذریعے شریف خاندان پر الزامات کے حوالے سے سینٹ میں موثر موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔ پارٹی قیادت نے اراکین کے ووٹوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے بڑی احتیاط سے ٹکٹ دئے ہیں۔
سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کی کہانیاں اس تسلسل کے ساتھ سامنے آئی ہیں کہ اگر کسی جماعت نے ووٹ خریدنے کی کوشش کی یا کسی رکن اسمبلی نے اپنا ووٹ روپوں کے عوض کسی کو دیا تو شہریوں کی نظر میں ایسا کرنے والا رسوا ہو کر اپنا سیاسی کیریئر تباہ کر بیٹھے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ بات خوش فہمی ہے تو چند روز انتظار کر لیں۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ ہر بار دیکھا گیا۔ اس بار اگر ووٹ نہ بکے تو سمجھ لیں کہ سیاست میں کم وسیلہ طبقات کا عمل دخل بڑھنے کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔ ہموار ووٹنگ کا عمل سردی میں آگ کے سامنے بیٹھ کر اسے تاپنے جیسا ہے، کوئی پشت کر کے بیٹھے گا تو جھلس سکتا ہے۔