اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ن لیگ سینٹ الیکشن سے پہلے حکومت گرانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتی ہے۔ اس کوشش میں مولانا فضل الرحمن شراکت دار ہیں، جن کا قول ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ ناجائز ہے اسے تحلیل کردیا جائے۔ مولانا اور ان کی جماعت موجودہ پارلیمانی نظام کی حامی نہیں۔ وہ صرف اس لیے اس نظام کا حصہ ہیں کہ باقی کوئی جماعت اس سلسلے میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اس بنا پر ان کے لیے یہ ایک غیر اہم معاملہ ہے کہ پارلیمنٹ ہو یا نہ ہو پھر وہ غلط یا درست اپنی ذات کو کوئی عشروں سے باور کرا چکے ہیں کہ ان کے بنا کوئی سیاسی نظام فعال نہیں ہوسکتا۔ وہ اس درجہ اپنی رائے میں پختہ ہیں کہ اپنے بیٹے اور بھائی کی موجودگی کو بھی پارلیمنٹ کے جائز ہونے کی سند نہیں سمجھتے۔
مسلم لیگ ن کے بہت سے اراکین اسمبلی اپنے قائدین سے بیزار ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک واقعہ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں پیش آیا۔ ن لیگ کے کچھ اراکین نے باقاعدہ جتھہ بندی کر کے اپنے تین چار ساتھیوں کو گھیر لیا۔ ایک سے زبردستی استعفیٰ لکھوایا گیا، دوسرے کے سر پر لوٹا رکھا گیا اور تیسرے کو دھمکیاں دی گئیں۔ ان تینوں کا قصور یہ تھا کہ وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملے۔ ن لیگ ان اراکین سے جمہوری انداز میں جوابدہی نہ کرسکی۔ پارٹی کے داخلی ڈھانچے میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ جمہوری روایات کو اپنے ہاں رواج دے سکے۔ موجودہ حالات میں ان اراکین کا وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنا بظاہر پارٹی مفادات کے خلاف ہے لیکن منظم سیاسی جماعتیں ایسی خلاف ورزیوں پر ایک خاص طریقہ اختیار کرتی ہیں۔ شوکاز نوٹس، اس نوٹس کے جواب پر مخصوص کمیٹی کی سفارشات، ان سفارشات پر سنٹرل ایگزیکٹو کی رائے اور پھر قیادت کا فیصلہ آتاہے۔ اس دوران پارٹی اپنی کوتاہیوں کا جائزہ بھی لیتی ہے۔ مسلم لیگ ایساکچھ نہیں کرتی اسی لیے شریف خاندان کی جلاوطنی پر مجبوری کی حالت میں جاوید ہاشمی پارٹی کے صدر بنا دیئے گئے۔ واپس آئے تو جاوید ہاشمی کو جتلا دیا کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔ ہاشمی پارٹی چھوڑ گئے۔ سعد رفیق جیسے کتنے ہی خود کو جاوید ہاشمی کا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ تحریک انصاف سے واپسی کے پس پردہ بھی یہی ہمدرد ہیں لیکن آج تک مسلم لیگ ن نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ کہ ہاشمی پارٹی کیوں چھوڑ گئے تھے اور ان کے جانے کو پارٹی نے کس طرح دیکھا تھا۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں ایک پیدائشی نقص ہے۔ یہ جماعتیں جمہوریت نہیں خاندانی آمریت کا تحفظ کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کیا اور اراکین پارلیمنٹ کیا۔ اہلیت یہ ہے کہ آج تک پالیسی سازی میں پارلیمنٹ اپنا کردار تسلیم نہیں کروا سکی۔ دفاعی بجٹ پر اعتراض آتے ہیں لیکن کیا کوئی رکن اسمبلی ہے جو دفاعی بجٹنگ، ضروریات اور اہم پہلوئوں پر بات کرسکتا ہو۔ حالت یہ ہے کہ ہر اسمبلی میں ایسے لوگ آ جاتے ہیں جو معاشی معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ ہر پارٹی کے پاس ایک آدھ نیم حکیم معاشی ماہر ہوتا ہے اسی سے کام چلایا جاتا ہے۔ ملک ایسے نہیں چلتا۔ ملک کی معیشت خراب ہے تو کم از کم پچاس ایسے لوگ پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں جو معاشی معاملات پر اتھارٹی ہوں۔ ذاتی وفادار، منہ سے آگ نکالنے والے اور والیاں درکار ہیں۔ کوئی انسان ان سے مکالمہ کر ہی نہیں سکتا۔ ہاں کسی میں غرانے کی صلاحیت ہو تو وہ ان سے بات کرے۔
پی ڈی ایم اصل میں نواز مولانا اتحاد ہے۔ پیپلزپارٹی تو صرف برائے قافیا اس میں شامل ہے۔ نواز شریف دینی جماعتوں کی احتجاجی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو کام کسی سے نہ ہو اسے دینی سیاسی جماعتیں کر لیتی ہیں۔ یہ تجربہ نوازشریف کی آخری حکومت کے خلاف بھی کیا جا چکا ہے۔ عملی صورت یہ ہے کہ اس وقت خود جمعیت علمائے اسلام میں کئی لوگ مولانا کی سیاست کے خلاف جھنڈا اٹھانے والے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کارکن اکتوبر 2016ء کو پرویز خٹک کی ریلی جیسا جلوس نہیں بنا سکتے۔ مسلم لیگی قیادت نے بڑھک مارنی ہو تو پہلے اردگرد اپنے حامی کھڑے کرتی ہے۔ لانگ مارچ کرنا ہو تو اپنے حامی پولیس افسران کے ذریعے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے پھر اسی پولیس اور حکومت کو للکارا جاتا ہے۔ اس وقت ایسے لوگ ڈھونڈے جا رہے ہیں جو مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں اپنی سرکاری حیثیت استعمال کر کے رنگ بھر سکیں۔ غداری کی ایف آئی آر کی شکل میں ابتدائی نتیجہ آ چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس سے غرض نہیں کہ کتنے لوگ جلسوں میں آتے ہیں وہ حکومت مخالف جلسوں سے ایک خاص ماحول تخلیق کرنا چاہتی ہے۔ ایسا ماحول جہاں لوگ عمران خان کی حکومت اور گورننس پر اعتماد کھو دیں۔ آٹے کی قلت کے پیچھے کھوجیں ایسے ذخیرہ اندوز نکل آئیں گے جو سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ مرحلہ سر ہو گیا تو پھر باقی کے طوفان اٹھائے جائیں گے۔ بس دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگلے سال کے شروع میں جب سینٹ الیکشن ہوں گے تو کیا واقعات کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہوگی کہ اراکین اسمبلی ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی گھر چلے جائیں۔ حکومت کی وسط مدت پر سینٹ الیکشن اصل میں انتقال اقتدار کا وہ مرحلہ ہے جو ابھی طے ہوناہے۔ ایک جمہوری دماغ یہ سوال ضرور اٹھائے گاکہ منتخب حکومت کو انتقال اقتدار کا راستہ بند کرنا کیاجمہوری عمل ہے؟ کیا اس عمل کو احتساب کا رد عمل تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ کیا سیاستدان اپنے ذاتی معاملات کو ریاست کے ساتھ لڑائی بنا کر پیش کریں گے تو ملک میں استحکام کی امید رہے گی؟ ساحر لدھیانوی کہہ گئے؛
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے