سعودی عرب جیسے قدامت پسند مسلم ملک نے فیصلہ کیا ہے کہ حجاج کرام اور تیل سے حاصل ہونے والی آمدن کے ساتھ اب سپورٹس، فیشن اور فلم پر سرمایہ کاری کی جائے۔ سعودی عرب میں ریڈسی فیسٹیول جاری ہے جس میں دنیا کے 67 ممالک اپنی ڈیڑھ سو سے زائد فلموں کی نمائش کر رہے ہیں۔ چار روز پہلے سلمان خان اورشلپا شیٹھی نے ایک کنسرٹ میں جلوہ نمائی کی۔ اس کنسرٹ کو 80 ہزار سعودی مرد وخواتین نے ٹکٹ لے کر دیکھا۔ اس ایک شو سے اتنی آمدنی ہوئی جو پچھلے بیس سال میں بننے والی پاکستان کی ساری فلموں پر آئی لاگت سے زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان کہلاتا تھا تو ہمارے بعض افسر وہاں جا کر عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔ میز پر ٹانگیں رکھ کر دفتری میٹنگ کرتے، بھات چاول کا مذاق اڑاتے، بنگالی گھرانوں میں موسیقی سیکھنے کی روایت کو بازاری لفظوں سے یاد کرتے۔ دیکھا جائے تو اس سیاسی و انتظامی خرابی کے باوجود پاکستان کی فلم انڈسٹری بھارت کا مقابلہ کر رہی تھی۔ پنجاب اور بنگال برصغیر میں فنون لطیفہ کے دو بڑے مراکز ہیں۔ تاریخی طور پر جنوبی ایشیا کی فلم نگری ان دو کی احسان مند رہے گی۔
1971ء سے پہلے پاکستان کی اردو فلموں کی کہانی، اداکاری، موسیقی اورگائیکی کمال پر دکھائی دی۔ بھارت ہماری کہانیوں اور گانوں کا چربہ کیا کرتا۔ بنگال الگ ہوا تو کچھ عرصہ پاکستانی فلم انڈسٹری بنگالی ہنرمندوں اور فنکاروں سے فائدہ اٹھاتی رہی لیکن ہماری کڑوی زبانوں اور ثقافت کی ٹھونسی گئی تشریح نے جلد ہی رونا لیلیٰ جیسی گلوکارہ کو بنگلہ دیش جانے پر مجبور کردیا۔ وہی رونا لیلیٰ جس نے اردو، سندھی اور پنجابی گیت اس عمدگی سے گائے کہ کہیں شائبہ تک نہ ہوا کہ وہ بنگالی ہیں۔
ایک دھوکہ ہمیں تمام حکومتیں دیتی آئی ہیں۔ اعلان ہوتا ہے کہ ثقافتی پالیسی متعارف کرائی جا رہی ہے۔ جانے کون سے ماہرین ثقافت یہاں کام کرتے ہیں جو اپنے ملک کی تاریخ کو اپنے جغرافیے کی تاریخ سے الگ سمجھتے ہیں۔ مقامی زبانوں کے فروغ کو بطور فیشن زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن عملی طور پر حوصلہ شکنی۔ ہم پر گویا ثقافتی حملہ آور آ بیٹھے ہیں جو پنجابی کو سرائیکی، پوٹھوہاری، جانگلی وغیرہ کی ٹکڑیوں میں کاٹ کر رابطے کی زبان بننے سے روک رہے ہیں۔ اسی طرح سندھی، بلوچی اور پشتو لسانیاتی تنوع کو اختلاف کے طور پر اجاگر کیا جارہا ہے۔ حیرت ہے کہ ثقافتی پالیسی والے ماہرین ہاتھ پر ہاتھ دھرے چپ ہیں۔ یہ مسئلہ اب اخبارات میں شائع بیانات اور کالموں تک آ پہنچا مگر حکومت لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔ اردو اور پنجابی فلموں کے زوال کی ایک وجہ پاکستانیوں کو سیاسی اور لسانی طور پر تقسیم کرنے کی کوششیں ہیں۔
استاد جمن، مائی بھاگی، فیض بلوچ، معشوق سلطان، ریشماں، پٹھانے خان، حامد علی بیلا، عالم لوہار۔ کیا ان کی زبان اور گیت ہم سب کی روح کو آسودہ نہیں کرتے۔ کیا نور جہاں، مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم، اقبال بانو سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ کیا نصرت فتح، صابری برادران اور مہر علی شیر علی ہم سب پر یکساں سحر طاری نہیں کرتے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمارے پاس صرف ماضی ہے۔ راحت فتح جیسا گلوکار ہے جسے بھارت میں سپر ہٹ نغموں کی ضمانت تصور کیا جاتا ہے۔ کئی اداکارائیں اور اداکار ہیں جن کے فن کا اعتراف بھارت میں کیا جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے پاس وہ ٹیلنٹ موجود ہے جو دنیا بھر میں پذیرائی پارہا ہے۔ اداکاروں، گلوکاروں، شاعروں اور موسیقاروں کا رزق ان کے فن میں پنہاں ہے۔ ہمارے فنکار اگر بڑھاپے میں بے کسی کی زندگی گزارتے ہیں تو کیا یہ ثقافتی پالیسی کی ناکامی نہیں۔
سینما جدید عہد کی ایک بڑی ایجاد ہے۔ حرکت کرتے، بولتے، ناچتے اور گاتے کردار بیک وقت دنیا کے کئی علاقوں میں ایک بڑے پردہ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سینما نے دیہاڑی دار مزدور سے لے کر دانشور تک سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
صنعتی ترقی نے زرعی معاشروں کی صدیوں پرمحیط تھکن زدہ زندگی کو نئی توانائی دی۔ نئے آلات پیداوار نے دولت پیدا کرنے کا عمل بہتر بنایا تو انسان نے تفریح کے نئے ذرائع ڈھونڈنے شروع کئے۔ یوں سمجھ لیں جیسے سعودیوں نے اب اپنی تاریخی تھکن اتارنے کا سوچا ہے۔ سینما جدید صنعتی سماج کی ثقافتی زندگی کا حصہ ہے۔ ہندوستان میں پچھلے ساڑھے تین ہزار سال سے پرفارمنگ اور گرافک آرٹ کے نمونے موجود ہیں۔ ہندوستان میں پہلا سینما بمبئی کے واٹسن ہوٹل میں 7 جولائی 1896ء کو شروع ہوا۔ ہندوستان کے باشندوں کے لیے سینما ایک غیر ملکی تفریح تھا جو بتدریج ہندوستانی مزاج میں ڈھلتا گیا۔
بھارت کی فلم انڈسٹری نے حجم اور منافع کو پیش نظر رکھ کراپنی صورت گری کی۔ بھارت دنیا کی دوسری بڑی فلمی صنعت ہے۔ بھارت کی فلمی صنعت نے افغانستان، ترکی، ملائیشیا اور عرب امارات میں بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا۔ ہالی ووڈ اور آسٹریلین فلمی صنعت کا بھارت کے ساتھ اشتراک بڑھ رہا ہے۔
بھارت میں فلم سازی پر سالانہ دو ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ بھارت میں صرف میوزک کی فروخت سے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں، جنوبی بھارت کی فلم انڈسٹری نے کورونا کی وبا کے دوران دبنگ کر کے اپنی مارکیٹ پھیلائی ہے۔ بھارت کی پنجابی فلمیں پاکستان اور کینیڈا مین بہت اچھا بزنس کر رہی ہیں۔ یو ٹیوب پر کئی ملین ناظرین نئی فلم کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ فلمیں بھارت کی ثقافت اور فن کو ہی نہیں فنکاروں کی مارکیٹنگ کا کام بھی کر رہی ہیں۔ سعودی عرب بھارتی فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کرے یا بھارتی ہنر مندوں کو اپنے ہاں کام دے، دونوں صورتوں میں ڈالر بھارت کو ملیں گے۔ ہم اگر اپنا کردار سعودیہ سے ادھار تیل لینے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں تو ہماری مرضی ورنہ کاروباری تعاون کے کئی راستے ہمارے منتظر ہیں۔