پاکستان میں سماجی شعور کی ایک ہی عوامی تحریک اٹھی۔ اسے اسلام دشمن اور ملک دشمن قرار دے کر کچل دیا گیا۔ بائیں بازو کے دانشوروں نے سٹڈی سرکل بنائے۔ کمیونسٹ اور سوشلسٹ اصولوں کو پیش نظر رکھ کر شرکاء محفل کو سوشلسٹ ضابطے کی تشریح سے آگاہ کیا جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حاضرین کو ایک سچوئشن دی جاتی۔ مثال کے طور پر کہا جاتا کہ پاکستان امریکی بلاک سے نکل کر چین کے بلاک میں شامل ہوا تو امریکہ کون سے ممالک اور اداروں سے پاکستان پر کس طرح کا دبائو ڈال سکتا ہے۔ ایک شرط یہ بھی لگا دی جاتی کہ جنگ کئے بنا ان ممالک اور اداروں سے تصادم کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ آج اس طرح کے دانشوروں کے اجتماعات لگ بھگ ختم ہو گئے۔
اگر کوئی تقریب ہوتی ہے تو اسے مہنگے ہوٹلوں میں سجایا جاتا ہے، مقررین کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں سوار ہو کرآتے ہیں اور غریبوں کے مسائل پر رونا دھونا کر کے ایک دوسرے کو داد دیتے ہیں۔ نہ کوئی عقل کی بات نہ کوئی تربیت کا نکتہ۔ امرا کے کئی تھنک ٹینک اور فورم بوڑھوں کے ٹاک روم بن کر رہ گئے ہیں۔ جیتے جاگتے انسان اور زندہ موضوعات آج بھی چائے خانوں اور خستہ حال بیٹھکوں میں زیر بحث آتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی رہی کہ لوگ باشعور ہو گئے تو اس کی چالیں ناکام بنا دیں گے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ خود امریکی بلاک کا حصہ ہے اس لئے عوام میں متبادل سوچ کی حوصلہ شکنی کی خاطر ایک آسان طریقہ آزمایا۔ مشہور کر دیا کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ دہریے ہیں۔ ان ادیبوں اور صحافیوں کو حوصلہ افزائی کی گئی اور مراعات فراہم کی گئیں جو عوامی بیداری کی اس مہم کے خلاف دلائل گھڑا کرتے۔ اس سلسلے کی اگلی کڑی ان سرگرمیوں کو گالی بنانا تھا۔ یہ گالی اس قدر استعمال ہوئی کہ اب اس کا مفہوم بے حیا، لادین اور بے غیرت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس دوران ایک ظلم یہ ہوا کچھ لوگوں نے سوشلزم کی تحریک ہائی جیک کر لی۔ حیرت کی بات کہ یہ لوگ بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے تھے۔ انہی کے ذریعے سوشلسٹوں کو بدنام کیا گیا۔ خیر اب سوشلزم خود بدل رہا ہے۔
چین نے وسائل سب میں برابر تقسیم کرنے کی بجائے نجی ملکیت کے حق کو تسلیم کر کے امریکہ کے لئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ پاکستانی دانشور اور ریاست اس تجربے سے محروم رہے لیکن ایک گروہ سماجی و ریاستی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مشن سے وابستہ رہا۔ افتخار بھٹہ اسی گروہ درویشاں کا حصہ ہیں۔ گجرات سوہنی مہینوال، بابا کاواں والا، چودھری ظہور الٰہی اور چناب کے مضطرب پانیوں کے علاوہ استاد امام دین اور چودھری اکبر علی ایم اے کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ ہمارے اوریا مقبول صاحب استاد امام دین کا لافانی شعر سنایا کرتے ہیں:
محمدﷺ کا جہاں پہ آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
یہ چودھری اکبر علی ایم اے ہی تھے جو ساری زندگی سادہ انداز میں جیے۔ تہہ بند اور کرتا، موٹر سائیکل پر بھینسوں کے لئے چارہ لاتے۔ جب بولتے تو ڈاکٹر لال خان، قمر زمان کائرہ اور افتخار بھٹہ فکر کے موتی دامن میں بھر لیتے۔ اکبر علی ایم اے نئی صدی کو ٹیکنالوجی کے تناظر میں دیکھتے۔ ان کی تحریر اپنے اسلوب اور موضوعات کے اعتبار سے اپنے عہد سے ایک صدی آگے تھی۔ یہ وہ ماحول تھا جس نے افتخار بھٹہ کی فکری پرورش کی۔
افتخار بھٹہ اور ان جیسے دوسرے کامریڈوں نے تمام زندگی صرف لوگوں کا سوچا۔ اب بھی ان کی تحریر میں تعلقات عامہ کی آرزو ہوتی ہے نہ ذاتی معاملات۔ ریاست اور سماج کو لاحق مسائل کا بیان اور پھر انہیں حل کرنے کی بابت تفصیل فراہم کرتے ہیں۔ بھٹہ صاحب بنک میں ملازمت کرتے رہے۔ ہمیں یوں لگتا کہ وہ لاہور رہتے ہیں۔ آئی اے رحمان صاحب، فرخ سہیل گوئندی، عابد حسن منٹو صاحب یا مزدور تحریک سے وابستہ دوستوں کی کوئی تقریب ہو افتخار بھٹہ گجرات سے چل پڑتے۔
ہماری سوچ کا زاویہ ٹیڑھا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ایک آدمی سے اپنے اجتماعی مسائل حل کرنے کی امید لگائی۔ کبھی ٹیم بنانے پر توجہ نہیں دی۔ اردگرد موجود ان سماجی خدمت گاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی جو معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا سیاست دان کبھی خود خدمت گار ہوا کرتا تھا، اب اس نے کارکنوں کے نام پر کرائے کے سماجی خدمت گار ڈھونڈ لئے ہیں۔ یہ کارکن سے زیادہ غلام ہیں اس لئے انہیں کسی بھی طرح برتا جائے یہ خوش رہتے ہیں۔
مساجد کے پیش امام اب تنخواہ لیتے ہیں، فلاحی تنظیم اب این جی او کہلاتی ہے۔ بلا معاوضہ مدد کرنے والے اب کنسلٹنٹ ہو گئے۔ ہمارے رویے کاروباری ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے لفظ، خیالات، توانائی اور وقت کے دام کھرے کر رہے ہیں۔ اس سے تبدیلی آئی ہے۔ ہم سب کی زندگی میں روپیہ آ گیا، جدید گھر، آرام دہ سواری، مہنگے ملبوسات، دستر خوان پر کئی طرح کے کھانے، فائدہ ہم نے اپنے آپ کو پہنچایا۔ معاشرے کو کیا ملا؟
ہم سب معاشرے سے لیتے ہیں۔ ہم پاکستانی کہلاتے ہیں، ہم برادری یا علاقے سے اپنی شناخت بناتے ہیں۔ ہم معاشرے کے اجتماعی ورثے کو اپنی ثقافت کہتے ہیں۔ کیا عجب تضاد ہے کہ جب سماج کے مسائل کی بات ہوتی ہے تو ہم ہر چیز سے لاتعلق ہو کر خود غرض بن جاتے ہیں۔ ہم پاکستان پر قرض کی فکر نہیں کرتے، اپنے قرض پر تشویش زدہ رہتے ہیں۔ پاکستان کی گلیوں میں کوڑا پڑا رہے۔ شہر دھوپ سے جلتے رہیں۔ فٹ پاتھوں پر بے گھر ٹھٹھرتے رہیں ہمیں کوئی غرض نہیں۔
ہمارے خیال میں یہ ریاست کا کام ہے ان کی مدد کرے۔ افتخار بھٹہ ایسا نہیں سوچتے، پچھلے کئی ماہ سے بستر علالت پر پڑے وہ ہر ہفتے مجھے فون کرتے ہیں۔ گجرات آنے کی دعوت دیتے ہیں، لوگوں کی مشکلات پر بات کرتے ہیں بس اپنی بیماری کا ذکر نہیں کرتے۔ ایسا بے لوث انسان بڑا بیش قدر ہوتا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی کتاب بھیجی ہے "میرے فکری سفر کے 50سال"۔ کتاب میں بھٹہ صاحب کی فکری سوچ اور اس سوچ کو پنپتا دیکھنے والوں کی آرا شامل ہیں۔ اللہ کریم بھٹہ صاحب کو جلد شفا عطا فرمائے۔