سینٹ انتخابات جس طریقے سے ہوا کرتے تھے وہ طریقہ متنازع ثابت ہو رہا ہے۔ الیکشن کمشن کو پہلی بار اس سوال کا جواب عدالت میں دینا پڑ رہا ہے کہ اس نے سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ سب سے اہم معاملہ بالواسطہ طریقے سے متناسب نمائندگی کا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات نے اس مسئلے کو بالکل جڑ سے پکڑ کر سوال اٹھایا ہے کہ جب ساری جماعتوں کو اسمبلیوں میں حاصل نمائندگی کے تناسب سے سینٹ میں نشستیں ملنا آئینی تقاضا ہے تو پھر کیوں ضروری ہے اس کام کے لئے اراکین اسمبلی کو ووٹ دینے کا کہا جائے۔
متناسب نمائندگی کا اصول اگر براہ راست انتخابات میں لاگو کیا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ووٹروں نے جس جماعت کو مجموعی ووٹوں کا 50فیصد دیا ہے پارلیمنٹ کی کل نشستوں کے نصف پر اس جماعت کے لوگ منتخب ہو جائیں گے۔ یہ کون لوگ ہوں گے؟ فرض کیا پاکستان کی قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 400ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں الیکشن کمشن کو اپنے 400امیدواروں کی فہرست دیں گی۔ ہر جماعت جتنے فیصد ووٹ لے گی اس کی نمائندگی اتنے فیصد ہو گی۔ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انتخابی مہم کا بوجھ امیدوار پر نہیں ہوتا، پارٹی کی ہار جیت ہوتی ہ ے اس لئے افراد میں انتخابی دشمنیاں پیدا نہیں ہوتیں، تمام امیدوار پورے ملک میں انتخابی مہم چلاتے ہیں کسی ایک حلقے تک محدود نہیں ہوتے۔ یہ طریقہ کار سیاست میں تنظیم کی اہمیت بناتا ہے اس کا ایک فائدہ ہو سکتا ہے کہ اچھے منشور کی حامل اگر کوئی جماعت کسی شہر تک محدود ہے تو ملک کے دور دراز علاقوں میں اس کے حامی ووٹ دے کر مجموعی ووٹوں کی شرح میں اسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔ یوں چھوٹی جماعتوں کو بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی خاطر ناگوار شرائط قبول نہیں کرنا پڑیں گی۔ پاکستان میں انتخابی عمل میں الیکٹ ایبلز کے عمل دخل، بدعنوانی، دھاندلی اور خرابیوں کے باعث مدت سے متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کرانے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن بڑی جماعتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے یہ ایک سنجیدہ سیاسی مطالبے کی شکل میں نہیں ڈھل سکا۔ الیکٹ ایبلز کا دھندہ اس طریقہ انتخاب میں چوپٹ ہو جاتا ہے اس لیئے فریب، تھانہ، کچہری پر یقین رکھنے والی جماعتیں اس کے حق میں نہیں۔
دنیا کی سب سے مستحکم معیشتوں میں سے ایک جرمنی متناسب نمائندگی کے اصول پر عام انتخابات کراتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں ہر سیاسی نظریے کا حامل اپنے ووٹ کے قدردان تلاش کر لیتا ہے۔ پاکستان کثیر الجماعتی نظام کے باوجود بہت سی پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہتا ہے۔ اس محرومی کا بدلہ یہ جماعتیں مسلسل احتجاج اور انتشار پیدا کر کے لیتی ہیں۔ اگر یہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھیں تو اپنے معاملات پارلیمنٹ میں زیر بحث لا سکتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ اوپن بیلٹ کا اصول تسلیم کر کے اراکین اسمبلی کے ضمیر کی آواز کا گلا دبایا جا رہا ہے۔ 1985ء کے بعد جتنی اسمبلیاں آئیں ذرا گن کر بتا دیجیے ان باضمیر افراد کے نام جنہوں نے ضمیر کی آواز پر کسی نالائق، بدعنوان، اور غیر مستحق امیدوار کو پارٹی کا نامزد ہونے کے باوجود ووٹ نہ دیا ہو۔ اراکین اسمبلی کی خاصی بڑی تعداد جس چیز کو ضمیر کہتی ہے وہ دراصل نوکریوں، ٹھیکوں، فنڈز اور مراعات کے عوض اپنا ووٹ دینا ہے۔ پاکستان میں ضمیر کی آواز بلند کرنے والوں کو پارٹی سے نکال دینے کا رواج ہے۔ حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام ف میں کیا ہوا۔ جماعت اسلامی سے تحریک اسلامی کیسے نکلی، مسلم لیگ کے بطن سے درجن بھر مسلم لیگیں کیسے برآمد ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے بدن سے نیشنل پیپلز پارٹی اور پیٹریاٹ کا وجود کیسے ابھرا۔ پھر جسٹس وجیہہ اور حامد خان کیسے پی ٹی آئی سے الگ کیئے گئے۔ مثالیں بے شمار ہیں۔ مہنگے قانون دان اور دانشور ضمیر کی آواز کو غیر ضروری اہمیت دے رہے ہیں، چھوڑیے اس کمزور دلیل کو جو عملی اخلاقیات سے ہم آہنگ نہیں۔
سب سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ یا خفیہ ووٹنگ سے کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان سینئر سیاستدانوں اور کئی بار ملک چلانے کا تجربہ رکھنے والی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کے اصولی موقف کی مخالف صرف اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ حکومت اسی موقف کے حق میں ہے۔ یقین مانیے عمران خان آج خفیہ ووٹنگ کی حمایت کر دیں تو پی ڈی ایم اوپن بیلٹ کی حامی بن جائے گی۔ سیاسی جماعتیں افراد کی مخالفت میں اپنا موقف ترتیب نہیں دیتیں عوام کے مفادات کو اہمیت دیتی ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ہیلری کلنٹن نے دو دن پہلے تجویز پیش کی ہے کہ الیکٹورل کالج ختم کر کے صدر کا انتخاب پاپولر ووٹوں سے کیا جانا چاہیئے۔ یعنی بالواسظہ کی بجائے عوام براہ راست ووٹ دے کر صدر کو منتخب کریں۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی جو امریکہ میں اس طرح کی تجویز پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
پاکستان کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جب رائے چاہی تو پوچھا: متناسب نمائندگی میں سے ووٹنگ کو کیسے نکالا جا سکتا ہے، بتایا: جناب اس اصول کے تحت قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر خواتین منتخب ہو جاتی ہیں، ان کے انتخاب کے لئے ووٹنگ نہیں ہوتی بس اسمبلی میں ان کی جماعت کی نشستوں کا تناسب دیکھا جا تا ہے۔ سینٹ کا بازار لگانے کی ضرورت نہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ روک دیں۔