کئی بار آپ بہت مشکل سے ددھل اور کانٹوں سے بھرے طویل رستے پر چل کر کسی مقام پر پہنچتے ہیں اور یکایک آپ اس احساس سے ڈھے جاتے ہیں کہ آپ یہ کٹھن سفر دائرے میں کرتے کرتے اسی مقام پر آ گئے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ افراد کی شکل میں قوم بھی دائروں کی قیدی ہو سکتی ہے۔ میرا نکتہ سمجھنے کے لیے ایک تقریر کے چند اقتباسات پڑھ لیجئے۔
وزیر اعظم کہہ رہے تھے:"لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں، پروپیگنڈہ کرتے ہیں اس کے باوجود عوام نے ہماری حمایت کی ہے۔ پروپیگنڈہ کے علاوہ دنیا مہنگائی کے طوفان سے گزر رہی ہے۔ جس نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ دنیا کا کوئی علاقہ نہیں جہاں مہنگائی سے لوگ پریشان نہ ہوں۔ سب اس کی گرفت میں ہیں۔ صرف پاکستان میں ایسا ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے یہ حکومت کی کوتاہی ہے۔ ہمیں جس چیز پر کنٹرول ہے آپ اس کے متعلق سوال اٹھا سکتے ہیں۔ گریبان سے پکڑ کر پوچھ سکتے ہیں کہ یہ غلط فیصلہ کیسے ہوا۔ سب کہہ رہے ہیں مہنگائی بڑھ گئی ہے، کیا یہ مہنگائی حکومت نے بڑھائی ہے؟
آپ جانتے ہیں پاکستان خود کفیل نہیں، یہ ہماری حکومت کا قصور نہیں۔ ہم اپنے کارخانے نہیں لگا سکتے اور ہر چیز باہر سے منگوانا پڑتی ہے تو اس میں ہماری غلطی نہیں۔ فولاد کے کارخانے نہیں۔ جب یہ بین الاقوامی حالات کا اثر ہے اور میرے بس میں نہیں تو میں کیا کروں۔
تیل کی قیمت پاکستان نے نہیں بڑھائی۔ یہ عربوں کا فیصلہ ہے اور ہم نے کہا ہے کہ ہم ان کے فیصلے کا خیر مقدم کریں گے۔ ہم عربوں کے دوست کے درجے میں ہیں۔ رعائتی نرخوں کے باوجود زیادہ پیسے دینا پڑیں گے۔ ہم نے کون سا غریبوں کا خون پی کر تیل کی قیمتوں کو بڑھایا۔ یہ درست نہیں ہو گا کہ میں کوتاہی کی باتیں آپ سے چھپائوں اور صرف نعرے لگائوں۔
ہر بات میں کہتے ہیں حکومت نے یہ کروایا، بارش ہوتی ہے تو کہتے ہیں سیلاب حکومت کی وجہ سے آ رہے ہیں۔ اپوزیشن والے چاہتے ہیں ملک میں خون خرابہ ہو، لیکن یاد رکھیں یہ جس سے مرضی مدد طلب کر لیں پاکستان کو مزید نقصان نہیں پہنچا سکیں گے"اس تقریر کا وقت، مقام اور دوسری تفصیل چند سطروں کے بعد پیش کروں گا۔
دنیا میں مسلسل جنگوں کا جاری رہنا ظاہر کرتا ہے کہ انسان پرامن زندگی کے لئے اب بھی جدوجہد کر رہا ہے۔ تہذیبوں کی معلوم تاریخ 14 ہزار برس کی ہے۔ ان 14 ہزار برسوں میں انسان کا سیاسی شعور صرف اس حد تک پروان چڑھا کہ اس نے پرامن انتقال اقتدار کے لئے ایک نظام تشکیل دیا۔ یہ نظام جمہوریت کہلاتا ہے۔ پہلے تخت کے دعویداروں میں مقابلہ ہوتا۔ ہزاروں لوگ مر جاتے۔ جو زندہ بچتا وہ بادشاہ کہلاتا۔
جنگیں ہوتیں تو صف بندی بھی کی جاتی۔ گھمسان میں یوں معلوم ہوتا حملہ آور اور دفاعی سپاہ ایک ہو گئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں فوج کے لئے الگ وردی نہیں ہوتی تھی۔ سب ایک جیسے معلوم ہوتے۔ ان کا سامان، ہتھیار اور کوئی مخصوص نشانی بھی نہ ہوتی۔ اس زمانے کی جنگوں کا تصور کرتے ہوئے ہم فلموں میں دکھائے معرکوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ دونوں لشکروں کے مابین ایک نومین لینڈ ہوتی۔ چند جنگوں کو چھوڑ کر اکثر لڑائیوں میں جانی نقصان 10فیصد سے زیادہ نہ ہوتا۔ زیادہ نقصان اس وقت ہوتا جب ہارنے والے لشکر کے پاس بھاگنے کا ہموار اور محفوظ راستہ نہ ہوتا۔ ایسی صورت میں پہاڑی چوٹیوں اور دریائوں کی وجہ سے بھاگتے ہوئے سپاہی مارے جاتے۔
جمہوریت کا ملبوس اشرافیہ کے پتلے کو پہنا دیا جائے تو یہ نظام غیر سیاسی اور غیر انسانی رویوں کا سرپرست بن جاتا ہے۔ سیاست بحران حل کرنے کا شعور فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست بحران پیدا کرتی ہے۔ سیاست دان ایک مدبر ہوتا ہے، پرنس بسمارک کی طرح، قائد اعظم کی طرح۔ ہم جن لوگوں کے نرغے میں کئی عشروں سے ہیں وہ اگر قومی بحران حل نہیں کر پائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ سیاست نہیں کر رہے مفاد پرستی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، اگر آپ تجزیہ کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کچھ وقت کے لئے شخصیت پرستی کو ایک طرف رکھ دیں اور آزادی کے فوراً بعد سے شروع ہونے والے مسائل کا ایک سرا پکڑیں، آپ اسی ڈور سے بندھے 2020ء تک آ جائیں گے۔ جماعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ لیڈر مختلف ہوتے ہیں لیکن گھمسان کا رن پڑتا ہے تو شناخت باقی نہیں رہتی کہ کون حملہ آور ہے اور کون مدافعت کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا اقتباسات وزیر اعظم عمران خان کی کسی تقریر سے نہیں لئے گئے۔ یہ 1973ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خیالات ہیں۔ بھٹو صاحب لیاقت باغ میں عوام سے خطا ب فرما رہے تھے۔ ایک گھنٹے سے طویل یہ تقریر میں نے تین بار سنی۔ ولی خان کے الزامات اور دیگر باتوں کو نکال کر وہ نکات نقل کردیئے ہیں جو آج بھی پاکستان کی جان کا روگ بنے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی عوامی تقاریر میں بھی ایسا ہی مواد مل جائے۔ آج پٹرول، اپوزیشن کے الزامات، ملک کی پسماندگی، وسائل کی کمی اور مہنگائی کے حوالے سے عمران خان بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ درمیان میں 47برسوں کا فاصلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ایک سفر ہے جس کی منزل دکھائی نہیں دیتی۔ جہاں بھٹو کھڑے تھے، عمران خان بھی وہیں کھڑے ہیں۔ سیاستدان، عدلیہ یا بیورو کریسی اگر ان میں سے کوئی ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا دعویدار ہے تو وہ ان آگے بڑھے قدموں کے نشان دکھا کر ہمارا حوصلہ بڑھائے جو پچھلے پچاس سال میں ہم نے ترقی کی طرف اٹھائے۔