کسی نے کہا تھا جمہوریت بہترین انتقام ہے، دیکھ اب رہے ہیں کہ جمہوریت ہم سے کیسے انتقام لے رہی ہے۔ چئیر مین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہو چکا۔ صادق سنجرانی کو مبارک، ہارنے والوں کے لئے مشورہ کہ آئندہ اپنے ہی لوگوں کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ نہ بتائیں۔ رات شاہد خاقان عباسی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے حافظ عبدالکریم کے ساتھ پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے کہ کتنی بدنصیبی ہے کہ ووٹ لینے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ حافظ صاحب نے اپنی باری آنے پر مختصر طور پر بتایا کہ کسی نے رابطہ کر کے ووٹ کی اپیل کی ہے۔ ایسے واقعات سینٹ انتخابات کے دوران بھی سامنے آئے۔ وزیر اعظم عمران خان کو کئی خواتین ارکان نے دور دراز کے ممالک سے آنے والی فون کالز کا بتایا۔ فون کرنے والے ووٹ کے عوض بھاری رقوم کی پیشکش کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے پاس رابطوں کا کچھ ریکارڈ محفوظ تھا لیکن الیکشن کمیشن سمیت کسی نے اس شکایت کو اہمیت نہ دی۔ جو ویڈیو منظر عام پر آئیں ان کی تحقیقات کرانے کی بجائے کہہ دیا گیا کہ ان میں کوئی قصور وار ثابت نہیں ہوتا۔
ایک بار جاوید جبار سے سوال پوچھا:کیا میڈیا واقعی ریاست کا چوتھا ستون ہے؟ وہ میری بات سمجھ گئے۔ کہا:چوتھا ستون بنانے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ جاوید جبار کی طرح میں بھی میڈیا کو چوتھا ستون نہیں مانتا۔ ہمارا میڈیا طاقت کا ستون ضرور ہے ریاست کا نہیں۔ نظام کی عالیشان عمارت دھاندلی، دھونس اور فراڈ پر یقین رکھنے والوں کے ہاتھوں تعمیر ہو تو میڈیا عوام کے آئینی حقوق غصب کرنے والوں کی طاقت کو سہارا دیتا ہے، عوام اور جمہوریت کو نہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اداروں پر تنقید کر رہے تھے اور پھر درمیان میں نام بھی لے لیا اس سے کچھ دیر پہلے نواز شریف کی ایک ویڈیو مختلف گروپوں میں شیئر کی جا رہی تھی۔ اس ویڈیو میں جو کہا گیا اور جن کے نام لئے گئے وہ خود تحقیقات کر سکتے ہیں، ہم تو اس لہجے پر تبصرہ کر سکتے ہیں جس سے مایوسی جھلک رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے نواز شریف جو مطالبات کر رہے تھے دوسری طرف سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔
نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے الزامات کی دھوڑ میں کچھ اور تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ حمزہ شہباز رہا ہو کر آئے تو ان کے وفادار کارکنوں نے مریم کی موجودگی میں "حمزہ حمزہ" کے پرجوش نعرے لگائے۔ اس روز حمزہ شہباز کے وفادار کارکنوں نے مریم کو جتلایا کہ پارٹی کے اندر کارکن کس کے ساتھ ہیں۔ خاص طور پر پنجاب میں۔ تازہ واقعہ یہ ہوا کہ میاں نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ایک ٹیلی فونک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں حمزہ شہباز نے یوسف رضا گیلانی کی بطور چیئرمین سینٹ نامزدگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو مریم نواز نے اس کو اپنی سیاسی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے والد سے کہا کہ حمزہ کو جیل میں کچھ چیزوں کا علم نہ ہو سکا، اس پر حمزہ نے کہا کہ وہ سب جانتے ہیں اور اپنے والد شہباز شریف سے اس بابت تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں۔ اس گفتگو کے راوی بتاتے ہیں کہ وہ خلیج جو اب تک خاندان کے اندر دکھائی نہیں دیتی تھی اور جسے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی باہمی محبت نے چھپا رکھا تھا اب مریم نواز کی سیاست کے باعث نمایاں ہونے کو ہے۔
پاکستان میں جمہوریت عوام دوست نہیں رہی۔ یہ عوامی نہیں طبقاتی جمہوریت ہے۔ پیپلز پارٹی جاگیرداروں اور مسلم لیگ ن شہری صنعتکاروں کی نمائندہ ہیں۔ دونوں میں سے جو اقتدار میں آئی اس نے ایسی قانون سازی کی جس سے محروم طبقات، جدوجہد میں مصروف خاندانوں اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ سندھ میں وڈیرہ جرم کرتا ہے اور بچ جاتا ہے۔ پنجاب میں کارخانہ دار مزدور کی تنخواہ دبا لے یا مزدور کو بھٹی میں جلا دے کہیں انصاف نہیں ملتا۔ پورے ملک میں کتنے لوگ ہیں جو جاگیردار ہیں یا کارخانہ دار۔ تنخواہ دار، بے روزگار اور دیہاڑی دار کی نمائندگی پورے نظام میں کہیں نہیں۔ بلدیاتی نظام میں کارکن منتخب ہو سکتے ہیں لیکن لیگی حکومت اور پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے بہترین نظام کو آمر کی یادگار قرار دے کر مسخ کر ڈالا۔ پارلیمنٹ میں مخصوصی نشستوں پر چونکہ بالائی طبقے کے لوگ آ رہے ہیں اس لئے اسے پرویز مشرف کی یادگار قرار دے کر گالی نہیں دی جاتی۔ محاورے میں بات سمجھائی جائے تو میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
سینٹ انتخابات کی شکل میں اعلیٰ تعلیم و ہنر یافتہ شخصیات کے لئے ایک راستہ رکھا گیا تھا۔ سائنسدان، ثقافتی شخصیات، علمی کام میں شہرہ رکھنے والے۔ سفارتی نزاکتوں کا علم رکھنے والے، معاشی حکمت عملی کو استادانہ نظر سے پرکھنے والے، بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی اور کامیاب افراد کو ریاست کا مددگار چننے کے لئے سینٹ بنایا گیا۔ دیکھ لیجیے ایسے کتنے لوگ سینٹ کا حصہ رہے یا اب ہیں۔ پھر چیئرمین سینٹ کا منصب ہے اس منصب کی پاکستانی نظام میں اہمیت ہے پنجاب کے پاس وزارت عظمیٰ ہے، سندھ سے صدر مملکت ہیں، کے پی کے سے سپیکر قومی اسمبلی ہیں۔ کیا چیئرمین سینٹ بلوچستان سے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بالادست طبقات وفاق کی اس ضرورت سے واقف ہیں، یہ لوگ نادان نہیں، بس اس وقت آنکھیں بند کر لیتے ہیں جب کوئی روایت شکنی یا آئین شکنی ان کے اپنے مفاد میں ہو:حبیب جالبؔ نے مشورہ دیا تھا:
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو
بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ ناداں
کس ہوا میں رہتے ہیں