9 مئی کے بعد ملزم کارکنان جیلوں میں پڑے ہیں اور ملزم قیادت مزے کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کیا قیادت قانون سے بالاتر ہے اور قانون کے نفاذ کے لیے کیاعام آدمی ہی باقی بچا ہے؟ کیا اس رویے کو قانون کی حکمرانی کہا جا سکتاہے کہ قیادت کی شہہ پر ایک وقوعہ ہوتا ہے لیکن قانون قیادت کی دہلیز پر دستک نہیں دے پاتا۔ وہ وقوعے میں ملوث عام لوگوں کوپکڑ کر تعزیرکے کوڑے سے ان کی کمر لال اور ہری کر دیتا ہے۔ لیکن سر راہ کہیں قیادت سے ملاقات ہوجائے تو وہ فرط جذبات اور عقیدت سے وہیں چشم ما روشن دل ما شاد ہوجاتا ہے کہ ملزم ہے تو کیا ہوا، ہینڈ سم سا تو ہے۔
کوئی بھی وقوعہ اچانک نہیں ہوتا۔ اس کی ایک چین ہوتی ہے، ایک تسلسل ہوتا ہے۔ کڑی سے کڑی جڑی ہوتی ہے۔ نو مئی میں بھی ایساہی ہوا۔ کچھ وہ تھے جو باقاعدہ ڈنڈے اٹھا کرشہداء کی یادگاروں کو توڑتے اور جلاتے رہے اور کچھ وہ تھے جو اس سب کے منصوبہ ساز تھے۔ مختلف شہروں میں اس احتجاج نما بلوے کی نوعیت کاا یک جیسا ہونا قابل غور ہے۔ یہ اضطراری رد عمل نہیں تھا۔ یہ طے شدہ منصوبہ تھا، جس کا آخری مرحلہ نو مئی کو ظہور پذیر ہوا۔
اس سے پہلے نفرت آمیز بیانیہ کھڑا کیا گیا۔ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کو اس سطح پر لے جایا گیا جس کے نتیجے میں ایسے واقعات کا ہونا ایک فطری بات ہوتی ہے۔ اس سارے واقعے میں سب کا کردار ہے۔ کچھ نے زہریلا بیانیہ دیا۔ کچھ نے مظاہرین کی قیادت کی۔ کچھ نے مظاہرین کو خاص مقام تک لے جانے میں سہولت کاری کی۔ کچھ سوشل میڈیا پر آگ لگاتے رہے، کچھ بڑی بڑی گاڑیوں میں قیادت کا فریضہ انجام دیتے اور وکٹری کے نشانات بناتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون ان سب پر لاگو کیوں نہیں ہو رہا؟ قانون کی دسترس میں صرف غریب کارکن کیوں؟
جلسوں جلوسوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ انہیں اشتعال دلانا آسان کام ہوتاہے۔ یہاں عقل کی نہیں جذبات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی لازم نہیں ہوتا کہ جلوس میں شامل ہر ایک شخص کی نیت ایک جیسی مجرمانہ ہو اور سب اس نیت سے واقف ہوں کہ ہم کرنے کیا جا رہے ہیں۔ ایسے میں زیادہ اور حقیقی ذمہ داری اس کی ہوتی ہے جو فیصلہ ساز ہو۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیادے تو قانون کی گرفت میں آ گئے، پیادوں کو حرکت دینے والے کب قانون کی گرفت میں آئیں گے؟ یاد رہے کہ جو قانون صرف پیادوں کے لیے طاقت ورہو اور طاقت ور کو دیکھ کر موم ہو جاتا ہو، وہ قانون نہیں ہوتا۔
پنجاب پولیس کی جیوفینسنگ رپورٹ کے کچھ مندرجات سامنے رکھے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں اس رپورٹ کی صحت تو عدالت میں ہی سامنے آئے گی تا ہم یہ کیا معاملہ ہے کہ پولیس اپنی ہی جیو فینسنگ رپورٹ کے مطابق عمل نہیں کر رہی۔
اس رپورٹ کے مطابق: "چیئر مین تحریک انصاف اور سینئر پارٹی قیادت کی جانب سے ایسی 400 فون کالز کا پتا چلاہے جن میں پارٹی کارکنان کو حساس مقامات کی طرف جانے پر اکسایا گیاـ"۔ کیا پولیس اور حکومت بتا سکتے ہیں کہ چار سو کالیں کرکے لوگوں کو اکسانے والی اس اعلی قیادت میں سے کتنے گرفتار ہوئے ہیں؟ کیا اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے اور کیا اشرافیہ کو اشرافیہ ہی بچا رہی ہے؟ کیا سب میں ا س بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ قانون صرف پیادوں، کارندوں اور کارکنان کے لیے ہے اور قیادت کی سطح پر یہ انجمن مفادات باہمی ہے جس کے دکھ سکھ سارے سیاسی اختلافات کے باوجود سانجھے ہیں؟
پولیس رپورٹ بتاتی ہے کہ کارکنان اور قیادت کو اس سب پر اکسانے کے لیے 154 کالیں تو صرف پی ٹی آئی قائد نے کیں۔ پولیس اس موقف کی صداقت تو عدالت میں ہی پیش کرے گی لیکن کیا فی الوقت اس کے پاس ا س سوال کا کوئی جواب ہے کہ اگر پی ٹی آئی قائد نے کارکنان اور قیادت کو اکسانے کے لیے 154 کالیں کیں تو قانون نے ان کی دہلیز پر اب تک دستک کیوں نہیں دی؟
پولیس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ساری کالیں پی ٹی آئی قائد کی گرفتاری کے بعد آٹھ اور نو مئی کو کی گئیں۔ سوال یہ ہے اس دوران وہ گرفتار تھے۔ گرفتاری کے دوران ایک شخص نے اتنی کالز کیں تو وہ کون تھا جو انہیں یہ سہولت فراہم کر رہا تھا۔ ایک زیر حراست شخص ڈیڑھ سو کالیں کر لیتا ہے تو کیا پولیس اور نظام تعزیر کے لیے اس سے پریشان کن چیز بھی کوئی ہو سکتی ہے۔ یہ کالیں پی ٹی آئی قائد نے اپنے نمبر سے کیں توحراست کے دوران انہیں ان کا فون رکھنے کی اجازت کس نے دی؟ یہ کالیں انہوں نے کسی اور نمبر سے کیں تو وہ نمبر کس کا تھا؟ پولیس کے وہ کون اہلکار تھے جو یہ سہولت کاری کر رہے تھے اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ یہ کام ظاہر ہے کوئی معمولی درجے کا پولیس اہلکار تو کرنے سے رہا۔ کیا حکومت اور پولیس بتائیں گے یہ سہولت کاری کس نے کی ا ور اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
جرم کی سنگینی کے اعتبار سے بھی اگر کوئی رپورٹ مرتب کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ذمہ داری کا زیادہ وبال قیادت پر ہے۔ قانون کا نفاذ بھی ذمہ داری کے تناسب سے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں الٹا کام ہو رہا ہے۔ یہاں سنگین ذمہ داری والے مزے کر رہے ہیں اور کارکنان قانون کے شکنجے میں ہیں۔
عام آدمی کے لیے بھی اس میں سوچنے ا ور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کی اوقات بس اتنی سی ہے کہ اسے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جائے اور استعمال کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جائے۔ ان پر پارلیمان کے درازے بند ہیں۔ الیکشن کو پیسے کا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ انہیں صرف استعمال کیا جاتا ہے اور سیاست میں ان کی افادیت اتنی سی ہے کہ ان کا استحصال کر لیا جائے۔ چنانچہ عالم یہ ہے کہ وقوعے سے پہلے جنہیں چار سو کالیں کرکے اکسایا جاتا ہے واقعے کے بعد انہیں کارکن تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔ حتی کہ انہیں پریس کانفرنس کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی۔
اس بات پر اشرافیہ کا اتفاق ہے کہ ملکی وسائل ان کی چراگاہ ہیں۔ کسی کو شک ہو تو سینیٹ میں چیئر مینوں کے لیے ہونے والی تازہ قانون سازی دیکھ کر اپنی تسلی کر لے۔ کارکنان البتہ ا ن کے نزدیک حشرات الارض ہیں۔
چنانچہ آپ دیکھ لیجیے نو مئی کے واقعات میں اسد عمر سے لے شاہ محمودقریشی تک، یاسمین راشد سے کر فواد چودھری تک اور پرویز الہی سے لے کر عمران خان تک، کسی کے بچے شریک نہیں ہوئے، لوگوں کو احتجاج پر اکسانے کے لیے کی جانے والی 400 فون کالوں میں کوئی ایک کال بھی کسی نے اپنے اہل خانہ کو نہیں کی کہ نکلو کپتان کی خاطر۔
عالی جاہ! قانون نافذکرنا ہے تو صرف پیادوں پر کیوں؟ کیا قانون بھی پانی ہوتا ہے جو صرف نشیب کا رخ کرتا ہے؟