ہوٹل کی لابی میں چند بدھ بھکشوئوں کو دیکھا تو خوش گوار حیرت ہوئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا اسلام آباد میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت ورثہ کے احیاء کے لیے عالمی گندھارا کانفرنس ہو رہی ہے جس میں شرکت کے لیے کوریا، ملائیشیا، چین، تھائی لینڈ، میانمر اور ویت نام سے بدھ بھکشو آئے ہوئے ہیں۔ یہ سنا تو خوش گوار حیرت ہوئی اور یادوں نے ہاتھ تھاما اور کئی سال پیچھے لے گئیں۔
یہ چپ چاپ سے اسلام آباد کی کہانی تھی جو ہم جیسوں نے آنکھوں سے دیکھی اور پھر سب کچھ وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔ مارگلہ کے پہاڑ کئی تہذیبوں کے رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ہندو تہذیب سے بدھ مت تک، کتنی ہی کہانیں ان پہاڑوں سے منسوب ہیں جو فراموش کر دی گئیں۔ ایک ورثہ ہے جس کے ساتھ سیاحت کے غیر معمولی امکانات منسلک ہیں لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔
ای سیون یعنی ڈھوک جیون کی بستی کے ساتھ آگے مارگلہ کے جنگل میں برگد کے درخت ہیں جہاں ایک زمانے میں بدھ بھکشو زائرین آیا کرتے تے۔ پھر یہ درخت جلا دیا گیا اور اس کے بعد اس جنگل میں کسی بدھ بھکشو کو نہیں دیکھا گیا۔ بوڑھا درخت اب بھی موجود ہے اور اس نے اپنے دامن سے لپٹوں شعلوں پر قابو پا لیا ہے لیکن اب زائرین اس سے روٹھ چکے ہیں۔ یہاں اب کوئی بدھ بھکشو نہیں آتا۔
مارگلہ میں ہی گڑیالہ کے قدیموں غاروں سے بدھ بھکشوئوں کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ غار اس راستے پر واقع ہیں جہاں سے سکندر اعظم اس خطے میں داخل ہوا تھا۔ یہ قدیم درہ ہے جو ایک زمانے میں افغانستان سے آنے والے قافلوں کی آماج گاہ ہوتا تھا۔ ان غاروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مغلوں سے پہلے یہ غار ہندو اور بدھ مت کے لوگوں کے استعمال میں تھے جو یہاں بیٹھ کر گیان دھیان میں مصروف رہا کرتے۔ ان غاروں سے بدھ مت کو ایک نسبت ہے۔
روایت ہے کہ یہ غار پتھر کے زمانے کے ہیں اور انسان نے پہلی بار ان غاروں کو اڑھائی ہزار سال پہلے استعمال کیا۔ بدھ مت کے لوگوں کے لیے یہ غار اور ان کے باہر برگد کا ایک ہزار سال قدیم درخت مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں یہاں بھی بدھ بھکشوئوں کو آتے جاتے دیکھا۔ ہمارے رویوں نے پھر یہ ساری سیاحت ختم کر دی اور بدھ مت کے زائرین نے ادھر آنا چھوڑ دیا۔
حکومت جاپان کی مگر آج بھی ان غاروں میں دل چسپی موجود ہے۔ جاپان نے سی ڈی اے کے ساتھ مل کر ان غاروں کے تحفظ پر بہت کام کیا ہے۔ دونوں کے ایک مشترکہ منصوبے کی تختی غاروں کے باہر لگی ہے۔
ٹیکسلا کی ایک قدیم تہذیب ہے اور مارگلہ اس تہذیب کا دروازہ رہا ہے۔ کسی نے اس تہذیب کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی۔ درہ جنگلاں میں بہت اوپر جا کر کچھ غار ہیں۔ ان کے بارے میں روایت یہ ہے کہ یہ صدیوں پہلے بدھ بھکشوئوں کے استعمال میں رہتے تھے۔ جاڑے کی رت میں ان غاروں میں لومڑیاں دھوپ سینک رہی ہوتی ہیں۔ دنیا اپنے سیاحتی امکانات سے فائدہ اٹھاتی ہے ہم نے انہیں یوں نظر انداز کر رکھا ہے جیسے یہاں کچھ ہے ہی نہیں۔
سوات تو بدھ مت کے زائرین کا ایک مستقل ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ پچھلے سال کمراٹ کی حسین وادی سے واپسی پر سوات کی طرف مڑے تو کئی مقامات پر بدھ یادگاروں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ ان مقامات پر تھوڑی توجہ دی جائے اور سیاحت کے حوالے سے ان مقامات کی تشہیر کی جائے تو یہ خطہ بدھ مت کے زائرین کی توجہ کھینچ سکتا ہے۔ یہ ہماری ناکامی رہی ہے کہ ہم نے مارگلہ سے لے کر سوات تک کسی بھی علاقے کو بدھ مت کی سیاحت کا مرکز نہیں بنایا۔
سوات میں بدھ مت کے سینکڑوں مقامات موجود ہیں۔ احتیاط سے کھدائیاں کی جائیں تو کتنے ہی مزید مقامات سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ اس تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ دھر مراجیکا اسٹوپا اور تخت بھائی جیسے کئی مقامات ہیں جن میں سیاحت کے غیر معمولی امکانات ہیں۔
مارگلہ سے سوات تک اس علاقے کے بدھ مت کے سیاحتی پوٹینشل کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اسلام آباد سے معمول کی کھدائی کے دوران بدھا کا سٹوپا بر آمد ہو چکا ہے۔ مذہبی سیاحت ایک پوری انڈسٹری ہے جس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ گندھارا تہذیب کا مرکز ٹیکسلا۔ ٹیکسلا سے سوات تک اس تہذیب کے نقوش بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن یہ سب ناقدری کا شکار ہو چکا ہے۔
مشرقی پاکستان کے راجہ تری دیو رائے نے بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور انہیں تاحیات وفاقی وزیر کا درجہ حاصل تھا۔ انہیں ان چیزوں کا ذوق تھا اور اسلام آباد کے ڈپلو میٹک انکلیو میں انہیں نے بدھ معبد بنایا تھا۔ ان کے بعد کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔
ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ بدلپور سٹوپا، جہان آباد بدھا، بھاملا سٹوپا، جولیاں سٹوپا، شنگردار سٹوپا، بٹکارا، رانی گھاٹ، سری بہلول، مینکالا سٹوپا، جندال ٹیپمل، جنان والی ڈھیری، پیپلاں سٹوپا، سرسخ سٹی، سرکپ سٹی، دھرمارجکا سٹوپاکیا ہیں اور کہاں ہیں؟ کبھی کہیں ذکرسنا ہو تو بتائیے؟
سیاحت اور اس سے متصل امکانات کو یہاں سمجھا ہی نہیں گیا۔ سیاحت کی وزارت ایسے ایسے حضرات کو دے دی جاتی ہے جن کی افتاد طبع ہی سیاحت پر مائل نہیں ہوتی۔ نہ ان کا تجربہ ہوتا ہے نہ ذوق ہوتا ہے۔ بس مال غنیمت میں وزارتیں تقسیم کی جاتی ہیں۔
سیاحت ایک غیر معمولی شعبہ ہے۔ ملک میں امن وا مان ہو اور سیاحت کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی معاشی سرگرمی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے غیر معمولی ا مکانات موجود ہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جن کی معیشت میں سیاحت کو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہے۔
اپنے خاص پیرہن میں بد بھکشوئوں کا وفد ہمارے سامنے بیٹھا ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اسلام آباد میں عالمی گندھارا کانفرنس ہو رہی ہے تو یہ آج کی ایک بڑی خبر کیوں نہیں بن سکی؟ اس کا تو ہر طرف شہرہ ہونا چاہیے تھا اور میرے جیسے طالب علم کو کسی سے پوچھنے کی حاجت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ اسلام آباد میں بدھ بھکشو کیوں نظر آ رہے ہیں۔ آج تو ٹی وی سکرینوں پر سجاد اظہر جیسے ماہرین کا غلبہ ہونا چاہیے تھا۔ جو ہمیں بتاتے کہ راول دیس سے سوات کی وادی تک مذہبی سیاحت کے کیا کیا امکانات موجود ہیں۔ عالمی گندھارا کانفرنس جیسی سرگرمیاں اگر عوامی سطح پر کسی ارتعاش کا باعث نہیں بن سکتیں تو ان کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ہمیں سیاحت کے باب میں غیر معمولی تحریک کی ضرورت ہے جس کے اثرات ملک میں ا ور بیرون ملک بھی محسوس کیے جائیں۔
معاملہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ ہمیں سیاست ہوگئی ہے۔ ہم جہاں بھی ہیں اور جس حال میں بھی ہیں ہمیں سیاست پر بات کرکے لطف آتا ہے۔
سیاست ہی ہمارا مزاح ہے اور یہی ہماری تفریح۔ اس آزار سے نجات کی ضرورت ہے۔