سڑک پر بیٹھی لاچار ماں، اس کی گود میں تڑپتا اسکا بچہ، بچے کی اکھڑتی سانسیں، اور دوپٹے کے پلو میں چہرہ چھپائے درد کی شدت سے بلکتی ماں۔ صبح سے بیٹھا سوچ رہا ہوں اس پر کیا لکھوں؟چشم نم سے شرمندہ، ہم قلم سے شرمندہ، سوچتے ہیں کیا لکھیں؟سڑک پر ماں کی گود میں بچہ دم توڑ دے کہ ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں تھی تو اس سے بڑی قیامت اور کیا ہو سکتی ہے؟
پھیلے شگاف سینے کے اطراف درد سے
کوچہ ہر ایک زخم کا بازار ہو گیا
ماں اور بیٹے کا رشتہ کیا ہوتا ہے یہ اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے۔ اپنے بچپن میں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ احساس اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے بچوں کی ماں کا حال دیکھتے ہیں۔ بچوں کی ماں کو دیکھتا ہوں تو اپنی ماں یاد آتی ہے۔ اس نے بھی مجھے ایسے ہی ناز سے پالا تھا۔ بلکہ ا س سے کہیں زیادہ۔ بچپن میں مگر کسے احساس ہوتا ہے کہ ماں کیا ہوتی ہے۔ علی گاہے بیمار ہو جائے تو میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے پہلے ہسپتال علی کو لے جائوں یا اس کی ماں کو۔ اللہ کا شکر ہے اسلام آباد کے بہترین ڈاکٹر دستیاب ہیں۔ نہ دن کی قید ہے نہ وقت کی، ہر دن ہر وقت دستیاب ہیں۔ لیکن گھر سے کلینک یا ہسپتال تک کے سفر میں گویا دو مریض ساتھ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سے چاکلیٹ لیتے ہی بیٹے کا فلو ٹھیک ہو جاتا ہے اور بیٹے کو مسکراتا دیکھ کر اس کی ماں بھی صحت یاب ہو جاتی ہے۔ جب سے میں نے ایک ماں کی گود میں ایک بیٹے کو مرتے دیکھا ہے درد کنپٹیوں میں آکر بیٹھ گیا ہے۔
یہ تو ایک منظر نامہ ہے جو سامنے آیا اور لہو رلا گیا۔ ایسے کتنے ہی واقعات ہوں گے جو اوجھل رہ گئے ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم فراہمی پر سب سے زیادہ آواز میرے دوست سینیٹر کریم خواجہ نے اٹھائی تھی۔ اب وہ حکومت سندھ میں ایک اہم منصب پر فائز ہیں۔ سندھ کا اس قت حال یہ ہے کہ صرف کراچی کے چار ہسپتالوں میں صرف اس سال کے دوران کتے کے کاٹے کے 18ہزار مریض لائے گئے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سندھ میں چند سال پہلے ایک سال میں 97 ہزار ایسے مریض رجسٹر کیے گئے۔ ان مریضوں کے لیے ویکسی نیشن کی سہولت کا عالم یہ ہے کہ کراچی میں صرف دو ہسپتالوں جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل کالج سنٹر اور انڈس ہسپتال میں یہ سہولت موجود ہے باقی تمام ہسپتالوں میں یہ ویکسی نیشن دستیاب نہیں ہے۔
حالت تو یہ ہے کہ سندھ حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے بعد ملنے والے غیر معمولی بجٹ میں سے اپنے ہیلتھ بجٹ کا 70 فیصد سرکاری ہسپتالوں اور اداروں کی بجائے این جی اوز اور پبلک لمیٹڈ کمپنی میں بانٹ دیا تھا۔ وہ بھی براہ راست۔ سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال ایک این جی او کے حوالے کر دیا گیا۔ ملیر کے سندھ گورنمنٹ ہسپتال ابراہیم حیدری کے 14 مقامات ایک این جی او کے حوالے کر دیے گئے۔ سجاول اور ٹھٹہ ہسپتالوں کی ایمبولیینسز این جی اوز کو دے دی گئیں۔ ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی کو 70 ایمبولینسز عطا کر دی گئیں؟ شاید اس لیے کہ اس پبلک لمیٹڈ کمپنی کے بورڈ آف گورنر میں ایک سابق وزیر اعلی کی صاحبزادی تھیں۔
سیکرٹری ہیلتھ نے سندھ ہائی کورٹ کو خود بتایا صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے 1340 بچے مر چکے ہیں۔ چند ماہ پہلے سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی کہ لاڑکانہ میں ایمبولینس کی سہولت کا یوں فقدان ہے کہ مریضوں کو رکشوں میں ہسپتال لایا جاتا ہے لیکن کس کو پرواہ تھی کوئی اس قرارداد پر غور کرتا۔ نیوٹریشن سپورٹ فنڈ کے باوجود تھر میں بچے مر رہے ہیں؟سندھ کی 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ سندھ میں 60 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ گویا سندھ کے بچوں کا 55 فیصد سکول کی تعلیم سے محروم ہے۔ 5483 سکول بند پڑے ہیں۔ 47 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ 66 فیصد سکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ 53 فیصد سکول پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ 49 فیصد سکولوں میںٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ محکمہ تعلیم نے خود سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ 1185 پرائمری سکول غیر فعال ہیں۔ سپارک یعنی سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق بعض سکولوں میں اساتذہ موجود ہی نہیں اور کچھ سکولوں میں طلباء کم اور اساتذہ زیادہ ہیں۔ چائلڈ لیبر سروے کے لیے 54 ملین مختص کیے گئے لیکن سروے نہیں ہو سکا۔ سٹریٹ چائلڈ کی فلاح کے لیے 314 ملین رکھے گئے تھے۔ معلوم نہیں کہاں گئے۔ یہ اعدادو شمار کوئی انکشاف نہیں۔ چند ماہ پہلے بھی ایک کالم میں میں یہ لکھ چکا ہوں لیکن جب تک غریب کا بچہ مرتا رہے کسی کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔
اس وقت وفاق کا شیئر ساڑھے بیالیس فیصد اور صوبوں کا شیئر ساڑے ستاون فیصد ہے۔ آئین کے آرٹیکل 160 کی ذیلی دفعہ تین اے کے تحت یہ لازم ہے کہ صوبوں کو ملنے والی رقم گذشتہ سال کے مقابلے میں کم نہ ہو۔ گویا ہر سال صوبوں کو زیادہ رقم مل رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خرچ کہاں ہو رہی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو نہ کوئی پوچھے گا نہ پوچھنے دے گا۔ اٹھارویں ترمیم سے موج میلا جاری ہے۔ شاہی خاندان کے سپوت پوشاکیں زیب تن کر کے اسلام آباد اسمبلی میں خطاب فرماتے ہیں اور ان کے حصے کے بے وقوف کہتے ہیں اگلا شاہ معظم یہی شہزادہ ہو گا۔ یہ لوگ روتے بھی شاہی خاندان کے لیے ہیں اور بغلیں بھی ان ہی کے لیے بجاتے ہیں۔
بھلے سارا جہان مر جائے، شاہی خاندان اور اس کے مجاور چیخ چیخ کر کہیں گے بھٹو زندہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ قوم ہاتھ جوڑ کر کہے: بھٹو صاحب ! دیکھ لیجیے آپ کے نام پر اقتدار کے مزے کرنے والوں نے سندھ کا کیا حال کر دیا۔ ان سیاسی مجاوروں نے آپ کو جینے جوگا چھوڑا ہی کب ہے۔ بھٹو صاحب اب آپ مر جائیں پلیز۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے بھٹو صاحب؟