اقوام متحدہ میں عمران خان نے نہایت خوبصورت خطاب کیا، لازم ہے کہ عمران کی تحسین کی جائے لیکن کیا یہ بھی لازم ہے کہ دوسروں کی ہجو بھی کہی جائے اور ثابت کیا جائے کہ ان سے پہلے تو جو بھی وزیر اعظم آیا اس نے تو بس لٹیا ہی ڈبو ڈالی تھی اور قومی جذبات کی ترجمانی کا فریضہ تو بس تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ادا ہواہے؟مبالغہ نفرت میں ہو یا محبت میں، آزار ہی ہوتا ہے۔
1996ء میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر ایک بہت بڑا چیلنج در پیش تھا۔ ہوا یہ کہ سلامتی کونسل نے 30 جولائی 1996 ء کو ایک غیر رسمی میٹنگ میں یہ فیصلہ کر لیا کہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج کیا جاتا ہے اور 15 ستمبر سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر نہیں ہو گا۔ 2 اگست کو سلامتی کونسل کے صدر کے دستخطوں نے ایک نوٹ جاری کر دیا گیا کہ مسئلہ کشمیر اب سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ اس نوٹ کے ساتھ ایک فہرست میں کچھ اور ایسے مسائل کا بھی ذکر تھا جو گذشتہ پانچ سال میں سلامتی کونسل میں زیر بحث نہیں آئے تھے۔ طے یہ کیا گیا کہ اگر کسی ملک کو اعتراض ہوا تو متعلقہ مسئلے کو ایک سال کے لیے عبوری طور پر ایجنڈے پر رکھ لیا جائے گا لیکن اس ایک سال میں اگر سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر غور نہ کیا تو ایک سال کے بعد اسے خود بخود سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج تصور کیا جائے گا۔
پاکستان کے لیے یہ انتہائی پیچیدہ اور تکلیف دہ صورت حال تھی۔ اگر مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے ہی سے خارج ہو جاتا تو بھارت پر جو ایک دبائو تھا وہ بھی ختم ہو جاتا اور مسئلہ کشمیر کی صورت ہی اور کی اور ہو جاتی۔ معاملہ بے نظیر بھٹو کے علم میں لایا گیا۔ روایت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو نے پوچھا اس پر کیا کرنا چاہیے تو انہیں بتایا گیا کہ اعتراض داخل کرنا چاہیے تا کہ ایک سال کی مہلت مل جائے اور اس دوران کوشش کر کے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جائے۔ بے نظیر بھٹو نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ یہ فیصلہ ہی غلط ہے اور ہم اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے اعتراض داخل کرنے کی بجائے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا جائے کہ یہ غلط فیصلہ ہے اور اسے واپس لیا جائے۔ چنانچہ 13 اگست 1996 ء کو اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب نے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا کہ یہ فیصلہ غلط ہے اسے واپس لیا جائے۔ اس خط کے مندرجات بی بی نے اپنی نگرانی میں خود تیار کروائے۔
پہلا اعتراض یہ تھا کہ جناب صدر آپ نے فیصلہ بند دروازوں میں ہونے والے غیر رسمی میٹنگ میں کیسے کر لیا؟یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس کے بہت سنگین نتائج مرتب ہوں گے اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سلامتی کونسل کے کردار پر سوال اٹھے گا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ معاملہ پاکستان سے متعلق ہے جناب صدر آپ نے پاکستان سے رجوع کیے بغیر اس سے بات کیے بغیر اور اس کا موقف جانے بغیر یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟ یہ سلامتی کونسل کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ تیسرا اعتراض یہ تھا کہ جناب صدر اتنا اہم اور سلگتا ہوا مسئلہ جس پر سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں اسے حل کروانے کی بجائے ایجنڈے ہی سے خارج کرنے کا مطلب تو یہ ہو گا کہ سلامتی کونسل اس مسئلے سے الگ ہو رہی ہے۔ خط میں لکھا گیا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ جس مسئلے کو آپ نے حل کروانا تھا آپ اس مسئلے سے بھاگ رہے ہیں۔ چوتھا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے اس فیصلے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا تھا جناب صدر وہ طریقہ ہی ناقص ہے اور آپ جس نتیجے پر پہنچے وہ نتیجہ بھی ناقص ہے۔ پانچواں اعتراض یہ تھا کہ یہ جو آپ نے اعتراض کی صورت میں متعلقہ مسئلے کو عبوری طور پر ایک سال کے لیے ایجنڈے پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ہمیں یہ بھی قبول نہیں۔
یہی کام کر کے بے نظیر بیٹھ نہیں گئیں۔ انہوں نے دنیا سے رابطے کیے چنانچہ دنیا بھر سے کئی ممالک نے پاکستان کے اختلافی نوٹ کی بنیاد پر اپنا اختلافی نوٹ سلامتی کونسل کے صدر کو بھیجا۔ او آئی سی نے بھی اعلامیہ جاری کیا کہ کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ سلامتی کونسل ورکنگ گروپ نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ فیصلہ درست نہیں تھا اور اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ 29 اگست کو یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ بے نظیر نے یہ اصول بھی تسلیم کروا لیا کہ جب تک متعلقہ فریقین رضامند نہیں ہوں گے کوئی بھی مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان کا مقدمہ اقوام متحدہ میں سر ظفر اللہ خان نے بھی لڑا اور ذرا معلوم تو کیجیے کیسے لڑا۔ اب گر کسی نے انہیں سنا نہیں یا کوئی ان کی تقاریر پڑھ بھی نہیں سکا اور اسے لگتا ہے یہ " پہلی مرتبہ، ہوا ہے تو اس سادگی پر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ یہ مقدمہ بھٹو نے بھی پیش کیا اور یہ مقدمہ پیش کرنے میں بے نظیر بھٹو نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ تاریخ کے جس موڑ پر جس نے اپنا کردار ادا کیا اس کی تحسین ہونی چاہیے۔ عمران خان پر وقت نے ذمہ داری ڈالی تو انہوں نے بھی یہ مقدمہ پوری جرأت سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس پر ان کی تحسین بھی ہونی چاہیے لیکن یہ " پہلی دفعہ" کا نعرہ لگا کر باقی سب کے کام کی نفی کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی نہ تائید کی جا سکتی ہے نہ تحسین۔ یہی معاملہ اسلامو فوبیا کا ہے۔ عمران خان نے یہ بات انتہائی احسن انداز سے دنیا کے سامنے رکھی لیکن یہ بھی " پہلی دفعہ" نہیں ہوا۔ مہاتیر محمد عشروں سے اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور جب انہوں نے Jews rule by proxy کا نعرہ لگایا تھا تو دنیا اس جرأت رندانہ پر بھی حیران رہ گئی تھی۔