آزادی مارچ اس وقت ہماری سیاست کا عنوان بن چکا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور بہت آنے والے دنوں میں لکھا جائے گا۔ تاہم یہ معاملہ محض سیاسی نہیں، یہ ایک سماجی معاملہ بھی ہے۔ بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ یہ معاملہ جوہری طور پر سیاسی ہے ہی نہیں، یہ ایک سماجی معاملہ ہے۔ اگر چہ اس کا ظہور میدان ِ سیاست میں ہو رہا ہے۔
اس حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے نہ امور خارجہ۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے رویوں کا آتش فشاں ہے۔ معاشی چیلنج بھی آتے رہتے ہیں اور سیاسی بھونچال بھی لیکن لہجوں کا جو سونامی اس دور حکومت میں سامنے آیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ایسا نہیں کہ اس سے پہلے ایوان اقتدار کے جتنے بھی مکین رہے سب ابو بن ادھم کے پڑوسی ہوں اور بات کرتے ہوں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہوں۔ تلخ اور ناتراشیدہ لہجوں کا آزار پہلے بھی ہوتا تھا لیکن اب کی بار تو اسے فن کا درجہ مل گیا۔ پہلے کچھ لہجوں کا الائو بھڑکتا تھا تو ساتھ ہی ساتھ کچھ دھیمے لہجوں کی متانت اور ٹھہرائو بھی دیکھنے کو ملتا تھا، دو چار شعلہ بیان ہوتے تھے تو ایک آدھ حلیم الطبع بھی ساتھ ساتھ موجود رہتا تھا۔ اب تو مگر ایسے جنگجو اقتدار میں آئے کہ سبھی رستم تھے اور سبھی زبان بکف تھے۔
ایسے قادر الکلام وزرائے کرام چشم فلک نے کب دیکھے ہوں گے جو ہر جگہ، ہر وقت، ہر کسی کی طبیعت دنیا کی ہر زبان میں صاف کر سکتے ہوں مگر خاموش کسی زبان میں نہ رہ سکتے ہوں۔ ایسا معرکہ بپا ہوا کہ کہ کسی کی دستار سلامت رہی نہ گریبان۔ حریفوں کی تذلیل اور تضحیک کو یہاں فن کا درجہ دے دیا گیا۔ جو اس فن میں جتنا طاق تھا وہ اتنا ہی معتبر ٹھہرا۔
تبدیلی کے ساتھ گویا ایک اعلان عام تھا: جو صف انقلاب میں نہیں وہ بے ایمان ہے۔ وہ چور ہے، وہ ڈکیت ہے، وہ ذلیل ہے، وہ نامعتبر ہے، وہ دھرتی پر بوجھ ہے، وہ ملیچھ ہے۔ یہ اعلان ہوا اور با جماعت ہوا۔ گائوں میں پرائمری سکول کے بچے جس طرح چھٹی سے پہلے دو کا پہاڑا پڑھتے ہیں :
اک دونے دونے تے دو دونے چار، ایسے ہی ان نونہالان انقلاب نے مل کر تذلیل اور تضحیک کے پہاڑے سنانے شروع کر دیے۔ جس نے تنقید کی اسے لفافے کا طعنہ دیا گیا۔ جس نے اختلاف کیا اس کی تذلیل کی گئی اور سوشل میڈیا کے نونہالان صف شکن نے ایسی داد شجاعت دی کہ الامان، الحفیظ۔ یہ جارحیت اگر محض ایک سیاسی حکمت عملی تھی تو لازم تھا اس کے ساتھ ساتھ صف اقتدار سے کچھ دھیمی، متحمل اور شائستہ آوازیں بھی بلند ہوتی رہتیں تا کہ ایک توازن قائم رہتا۔ لیکن محسوس یہ ہوا کہ سیاسی حکمت عملی نہیں تھی، یہ سماجی آزار تھا جو اہل اقتدار اور ان کے وابستگان سے لپٹ گیا تھا۔
ان کے سماجی شعور کی بلندی کی یہ انتہاء تھی کہ ہمارے سوا اس سماج میں سب بے ایمان اور چور ہیں۔ ان کے سماجی رویوں میں وضع داری، شائستگی، اور حفظ مراتب کو بزدلی، بے ایمانی اور ابن الوقتی قرار دیا گیا۔ شجاعت اب یہی تھی کہ کوئی عزت بچا کر جانے نہ پائے۔ نونہالان انقلاب سوشل میڈیا سے لے کر معاشرے کی ہر نکر پر کھڑے تھے کہ خبردار جو کسی کا دامن سلامت رہا اور دستار محفوظ رہی۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اب وہ معتبر تھا جس کا ہاتھ زیادہ دستاریں اچھال آیا ہو اور جس کی زبان کی کاٹ سے درخت میں بیٹھی بلبل بھی دن میں سات دفعہ پناہ مانگتی ہو۔
سیاسی حلیفوں سے اختلاف نہیں کیا گیا۔ ان کی تذلیل کی گئی۔ جو جیلوں میں تھے اور سزا پا چکے تھے انہیں چور اور ڈکیت کہا جاتا تو اور بات تھی۔ جن پر مقدمات قائم تھے ان کے دامان تار تار کی دھجیاں بھی ڈی چوک کے پاس رکھے کسی گاربیج بن میں پھینک دی جاتیں تو گوارا کیا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو امان کی ایک ہی صورت تھی کہ تحریک انصاف کے قافلہ انقلاب میں شمولیت اختیار کر لی جائے۔ جس نے یہ سنگ میل عبار کر لیا وہ کہکشائوں کا مکین بن گیا اور اس کا دامن صبح کی پہلی کرن کی طرح اجلا اور منور ہو گیا اور جس نے یہ بھاری پتھر اٹھانے سے انکار کر دیا اس کی دستار کا کوئی پیچ سلامت نہ رہا۔
خود وزیر اعظم سٹیج پر آتے اور نونہالان انقلاب ڈیزل ڈیزل کہنا شروع ہو جاتے۔ عمران خان نے ہمیشہ اس رویے کی حوصلہ افزائی کی۔ کون سا سیاسی حریف ہے جس کی تضحیک انہوں نے خود نہیں کی۔ اپوزیشن میں یہ کام پھر گوارا کر لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اقتدار میں آ کر بھی یہی رویہ اختیار کیے رکھا۔
حکومت کو سوا سال ہو گیا، کتنے ہی رہنما جیل سے باہر ہیں اور ان پر کوئی مقدمہ بھی نہیں لیکن ان کی بھی تذلیل اور توہین کی گئی۔ آزادی مارچ روکا جا سکتا تھا یا اس کی حدت میں کمی کی جا سکتی تھی اگر رویوں کا آتش فشاں تھم جاتا لیکن یہاں تو خود وزیر اعظم طعنے دے رہے تھے کہ مولانا بھاگ نہ جانا آزادی مارچ ضرور کرنا، ہمت ہے تو ضرور آنا۔ میں کنٹینر بھی دوں گا اور کھانا بھی اور حلوہ بھی۔
توہین، تضحیک اور تذلیل سے ایک رد عمل پیدا ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی معاملات یقینا ہوں گے لیکن انہوں نے سیاسی معاملات ہمیشہ سیاسی انداز سے نبٹائے ہیں۔ آج وہ اس حد تک جا چکے ہیں تو اس کی وجہ سماجی بھی ہے۔ سماج میں جب آپ حکمت عملی کے تحت کسی کی تذلیل شروع کر دیں تو وہ رد عمل دیتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
یہی رد عمل اس وقت آزادی مارچ بن کر سامنے آیا ہے۔ مجھے علم نہیں اس مارچ کا انجام کیا ہو گا لیکن میں یہ جانتا ہوں تضحیک اور تذلیل سے حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔ حکومتیں چلانے کے لیے خیر خواہی، وسعت ظرفی، اور معاملہ فہمی بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ کام رضاکارانہ طور پر کیا جائے تو قد بڑھ جاتا ہے، حالات کے جبر کے تحت کرنا پڑے تو جگ ہنسائی ہوتی ہے۔