Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ballot Paper Par Nota Ka Option, Waqt Ki Zaroorat (2)

Ballot Paper Par Nota Ka Option, Waqt Ki Zaroorat (2)

ہمارے ہاں ایک امیدوار میدان میں ہو تو اسے بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلا مقابلہ انتخاب میں عوام کی رائے کدھر گئی؟ کسی نے کسی حلقے میں جوڑ توڑ سے مخالف امیدوار کو اپنے حق میں دست بردار کرا لیا تو کیا محض اس واردات میں مہارت پر اسے کامیاب تصور کر لیا جائے؟ وہ NOTA کی چھلنی سے کیوں نہ گزرے؟

امیدواران میں سے بھلے اس کے مقابلے میں کوئی نہ ہو لیکن حلقے کے عوام کے اجتماعی شعور کو فیصلے کے اختیار سے کیوں محروم کیا جائے؟ ہمارے نظام میں ووٹر کے پاس انتخاب کا مکمل حق نہیں بلکہ بسا اوقات اسے کمتر برائی کو منتخب کرنا ہوتا ہے یا ایک جیسی برائی میں سے کسی ایک کا لازمی انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ ووٹ ڈالنے آیا ہے تو کسی نہ کسی کے حق میں ووٹ دے کر ہی جائے یا پھر ووٹ ہی ضائع کر دے۔

کامیابی کے لیے کم از کم ووٹوں کی کوئی حد نہیں۔ ایک لاکھ کے حلقے سے اگر صرف 50 آدمی ووٹ دینے نکلیں اور ایک کو 24 ووٹ ملیں اور دوسرے کو 26 تو26 ووٹوں والا کامیاب قرار پائے گا اور سارے حلقے کا نمائندہ تصور ہوگا۔ اس معاملے کو سادہ اسلوب میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ چار پانچ امیدوار امتحان دینے جائیں اور کوئی ایک بھی پاسنگ مارکس کی مقررہ حد عبور نہ کر سکے تو کیا ان فیل شدگان میں سے کسی کو فرسٹ اور کسی کو سیکنڈ قرار دیا جائے گا؟ یا سبھی کو ناکام تصور کیا جائے گا؟ انتخابی عمل کی وہ کم از کم حد کیا ہے؟ نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟

یہ حلقے بھر کا انتخاب نہیں رہتا، یہ دستیاب اور متحرک دھڑوں کا انتخاب ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت لا تعلق رہتی ہے اور ان دھڑوں میں سے جس دھڑے کے ووٹ زیادہ ہو جائیں وہ کامیاب تصور ہوتا ہے۔ اگر انتخابات میں ووٹ ڈالنا لازمی قرار دے دیا جائے، اسے آسان کر دیا جائے اور ساتھ ہی NOTA کا آپشن بھی دے دیا جائے اور اسے رسم کے طور پر نہیں بلکہ پوری معنویت کے ساتھ نافذ کر دیا جائے تو تصور کیجیے، ووٹر کتنا با اختیار ہو جائے؟

انتخابی عمل اگر محض ایک مشق مستعجل ہے تو الگ بات لیکن اگر اسے با مقصد عمل میں ڈھالنا ہے تو پھر اس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ اہل سیاست ہی اگر چہ فیصلہ ساز ہیں اور پارلیمان میں بیٹھ کر قانون سازی وہی کرتے ہیں لیکن یہ کام محض اہل سیاست پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ بد گمانی ہی ہوگی لیکن اس کے وجود سے انکار ممکن نہیں کہ اہل سیاست اس نظام میں با معنی اصلاحات کے خواہشمند نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اس نظام کی خرابیوں سے مستفید ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے لیے سماج کو خود آواز بلند کرتے ہوئے اصلاح احوال کا مطالبہ کرنا ہوگا۔

بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت میں NOTA کا آپشن متعارف کرانے کے لیے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ جدوجہد کی گئی۔ اولین مرحلے میں سماجی سطح پر کچھ اداروں اور سماجی تنظیموں نے اس آپشن کی ضرورت پر زور دیا، دوسرے مرحلے میں 2001 میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے یونین منسٹر ارون جیٹلی کو خط لکھا کہ یہ NOTA کا آپشن بیلٹ پیپر میں شامل ہونا چاہیے۔ یہاں بات نہ بنی تو الیکشن کمیشن نے 2004ء میں یہی تجویز بھارتی وزیر اعظم کو بھیجی۔ جب معاملہ وزیر اعظم تک پہنچا تو انہوں نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی۔

معلوم ہوا کہ سیاسی جماعتیں اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہیں۔ چنانچہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گئی اور 2013 میں بھارتی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دے دیا کہ انتخابی بندوبست میں NOTA کا آپشن بھی شامل کیا جائے۔ ہمارے سوچنے کا کام یہ ہے کہ انڈین الیکشن کمیشن اگر سیاسی مخالفت کے باوجود یہ کام کر سکتا ہے تو پاکستانی الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟ پاکستان میں سماجی تنظیمیں اس معاملے کو کیوں نہیں اٹھا سکتیں؟

ہمارے ہاں سب سے زیادہ بحث سیاست پر ہوتی ہے، گاہے یوں محسوس ہوتا ہے سیاست کے علاوہ ہمارے پاس کوئی مو ضوع ہی نہیں لیکن سیاسی اور انتخابی عمل میں با معنی اصلاحات ہمارے سیاسی بیانیے کا حصہ نہیں بن سکیں۔ پاکستان میں NOTA کے آپشن کو اس کی پوری معنویت کے ساتھ موضوع بحث بنانا چاہیے۔ اس ضمن میں ان سارے مباحث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جو مختلف ممالک میں اس قانون کے اطلاق کے باب میں سامنے آئے۔ اس اطلاق اور اس بحث کے نتیجے میں سامنے آنے والے چند نمایاں نکات یہ ہیں:

1۔ انتخاب میں اگر NOTA کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں تو اس حلقے میں انتخاب کالعدم قرار دیا جائے اور تمام امیدواروں کو ایک خاص مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔

2۔ اگر NOTA کے ووٹ دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہیں تو جیتنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ان تمام امیدواران کو ایک خاص مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جائے، جن کے ووٹ NOTA سے کم ہوں۔

3۔ انتخاب کالعدم ہونے کی صورت میں اس حلقے سے ضمنی انتخاب کروایا جائے اور پہلے مرحلے میں حصہ لینے والے امیدواران کو اس میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو۔

4۔ ضمنی انتخاب میں بھی NOTAجیت جائے تو نشست خالی رکھی جائے اور دوسری بار ضمنی انتخابات نہ کرائے جائیں۔

5۔ نشست خالی رکھنا حلقے کے عوام کے لیے مناسب نہیں اس لیے ضمنی انتخابات میں NOTA کو شامل نہ کیا جائے۔

6۔ ضمنی انتخابات میں بھی NOTAجیت جائے تو شکست خوردہ امیدواران اور ان کی سیاسی جماعتوں کو ایک معقول رقم کا جرمانہ کیا جائے اور جرمانے کی یہ رقم انتخابی اخراجات کے طور پر الیکشن کمیشن کو ادا کی جائے۔

7۔ اگر NOTA کو ملنے والے ووٹ سب سے زیادہ نہ ہوں مگر جیتنے والے امیدوار اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار میں جتنے ووٹوں کا فرق آ رہا ہو، یہ اس سے زیادہ ہوں تب بھی الیکشن کالعدم قرار دے دیا جائے البتہ NOTA سے زیادہ ووٹ لینے والوں کو نااہل نہ کیا جائے۔

اس طرح کی بہت سی تجاویز مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں سامنے آتی رہی ہیں۔ ان تجاویز میں خامیاں بھی ہو سکتی ہیں اور خوبیوں کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ بنیادی کام یہ ہے کہ ان خطوط پر سوچنا شروع کیا جائے۔ سماجی سطح پر بھی، قانونی حلقوں میں بھی اور خود پارلیمان کے اندر بھی۔ انتخابی عمل کو اگر با معنی بنانا ہے تو اس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

ووٹ کے حق کامطلب یہ نہیں کہ صرف ایک محدود تر انتخاب کا حق ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ عوام کے پاس کسی کو رد کر دینے کا اختیار بھی ہو۔ چنانچہ اگر بیلٹ پیپر پر موجود تمام نام کسی کو پسند نہیں تو اس کے پاس یہ حق کیوں نہ ہو کہ the none of above کا آپشن استعمال کرتے ہوئے سب کو رد کر دے؟