ایک انگریزی اخبار کی خبر پڑھی تو چونک گیا۔ لکھا تھا: " پانچ ارب ڈالر کی مالیت سے تیار کیے جانے والے چشمہ فائیو نیوکلیئر پلانٹ میں جو بجلی پیدا کی جائے گی، وہ 20 روپے فی یونٹ ہوگی"۔ خبر اورتجزیے کو الگ الگ رکھنے کے بنیادی صحافتی اصول کو پامال کرتے ہوئے خبر میں ہی یہ تجزیہ بھی فرما دیا گیا کہ: "ملک نے کڑوی گولی نگل لی"۔
عام حالات میں شاید میں اس خبر کو نظر انداز کر دیتا لیکن اس موضوع کے ساتھ میری دلچسپی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ میرا چھوٹا بھائی انجنیئرنگ کرنے کے بعد اسی ادارے کے ساتھ وابستہ ہوا تھا اور اہم منصب پر فائز ہے۔ اس کے جنون کا یہ عالم ہے کہ عید پر بھی بسااوقات اسے چھٹی نہیں ملتی اور وہ اس سے ذرا بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کام کا ذکر جس جنون اور لگائو سے کرتا ہے یہ سرکاری ملازمین کا عمومی رویہ نہیں ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے افتخار عارف یاد آتے ہیں کہ آدمی کا رزق اگر اس کے شوق سے وابستہ ہو جائے تو وہ عیش کرتا ہے۔ یہ بات افتخار عارف ہی سے پوچھی جانی چاہیے کہ شو ق کے ساتھ اگر مقصدیت اور جنون بھی شامل ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟
اس سارے معاملے پر اس سے ہم نے کبھی بات نہیں کی، ہمیں معلوم ہے وہ کچھ نہیں بتائے گا، سوال کرنا فضول ہے۔ بجلی کے یہ پلانٹ وہ واحد چیز ہے جس پر وہ بتاتا ہے کہ ہمارے ادارے کا کنٹری بیوشن یہ ہے اور ہم یہ یہ کام کر چکے ہیں۔ ہم کسی پر بوجھ نہیں۔ ہم انرجی سیکٹر میں بروئے کار آ رہے ہیں۔ ہم اتنے میگا واٹ بجلی اس قیمت پر نیشنل گرڈ میں شامل کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بھائیوں میں جب ایک دوسرے کے ادارے اور کارکردگی پر بحث ہو رہی ہو تو" بنیادی، روایتی اور سنہرا " اصول یہی ہوتا ہے کہ دوسرے کی کسی بات کو تسلیم نہیں کرنا۔ میں بھی اسی مسلمہ اصول پر کارفرما رہتا ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ دلائل سے قائل کر لیتا ہے۔
اب چونکہ اس معاملے میں اس سے کافی کچھ سن رکھا تھا اس لیے اس خبر نے توجہ کھینچی کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ خبر میں تین چیزیں بیان کی گئی تھیں اور میرے خیال میں تینوں ہی مشکوک تھیں: پہلی بات یہ تھی کہ اس پلانٹ کی لاگت پانچ ارب ڈالر ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس کی تیار کردہ بجلی کی لاگت 20 روپے فی یونٹ ہے۔ تیسری بات یہ تھی کہ اس پلانٹ کی شکل میں تو ڈالروں کی قلت کے شکار ملک نے ایک کڑوی گولی نگل لی ہے۔
یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اگلے ہی روز اس خبر پرو ضاحتی نوٹ متعلقہ اخبار کو جاری کر دیاجس کے مطابق: پہلی بات یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ اس پراجیکٹ کی مالیت پانچ ارب ڈالر ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی مالیت تین ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ (یعنی خبر میں صرف 2 ارب ڈالر کا مبالغہ تھا۔ جی ہاں صرف دو ارب ڈالر کا۔ معمولی سی تو بات ہے۔ آزادی صحافت کو اتنی اجازت بھی نہ ہو کہ وہ دو ارب ڈالر ادھر ادھر کر سکے تو اس کا مزہ کیا رہ جائے گا۔)
دوسری بات یہ ہے کہ فی یونٹ لاگت کے بارے میں بھی خبر درست نہیں ہے۔ یہ لاگت بیس روپے فی یونٹ نہیں ہے بلکہ یہ قریب تیرہ روپے فی یونٹ بنتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا پاور پراجیکٹ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے پراجیکٹ ون، ٹو، تھری اور فور کامیابی سے کام کر رہے ہیں اور نیشنل گرڈ میں 1330 میگا واٹ بجلی شامل کر رہے ہیں جو باقی تمام ذرائع سے سستی پڑ رہی ہے۔
چوتھی بات یہ کہ یہ پراجیکٹ پاکستان کے لیے کڑوی گولی نہیں ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے لیے 120 ملین ڈالر کی چیزیں پاکستان کی مقامی مارکیٹ سے تیار کروائی جائیں گی اور خریدی جائیں گی۔ اس سے زر مبادلہ کی بچت تو ہوگی، ساتھ ہی مقامی مارکیٹ میں یہ ایسی چیزوں کی تیاری سے یہ صلاحیت بھی پیدا ہو جائے گی کہ آئندہ کسی پراجیکٹ کے لیے درکار چیزیں بھی یہیں سے مہیا ہوں گی اور ہائی ٹیک مینو فیکچرنگ کی راہ ہموار ہوگی۔
خبر بھی لگ گئی اور وضاحت بھی آ گئی۔ لیکن سوال اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جس شعبے میں کچھ قابل ذکر کار کردگی دکھاتا ہے یا جس شعبے میں کہیں پاکستان کے لیے کوئی امکان پیدا ہو رہا ہوتا ہے، اس کے خلاف ایک مہم سی برپا ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے، اسے اتفاق سمجھا جائے یا اس چاند ماری کو اہتمام کا نام دیا جائے۔
سی پیک سے پاکستان کے لیے معاشی امکانات پیدا ہونے لگیں تو سی پیک کے خلاف طوفان آ جاتا ہے۔ چین کے ساتھ مالی معاملات آگے بڑھیں تو چین کے عزائم کے بارے میں خوف ناک رپورٹس شائع ہونا شرع ہو جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب تک معاملات مغربی قوتوں کے فریم ورک کے مطابق چلتے ہیں راوی چین لکھتا رہتا ہے۔ جیسے ہی مغربی مروجہ سانچے سے ہٹ کر کچھ کیا جاتا ہے اس پر ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ کبھی کسی نے یہ تجزیہ نہیں کیا کہ مغرب کے ساتھ ا تحا د کی ہمیں کیا قیمت دینا پڑی ہے لیکن اس پر دیوان لکھے جا رہے کہ چین کی طرف جھکائو ہمیں کتنے میں پڑ سکتا ہے۔ طریق واردات بھی واضح ہے۔ ایک خبر آ جاتی ہے، چین کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ایک درفنطنی چھوڑ دی جاتی ہے، صحافت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے خبر میں ہی تجزیہ بھی شامل کر دیاجاتا ہے کہ یہ کڑوی گولی ہے۔ اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر بیٹھے مہم جو رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی واردات ہے جو سماج کو ادھیڑ دیتی ہے۔ اسے کنفیوزکر دیتی ہے۔
ہو سکتا ہے میں ہی غلط ہوں لیکن بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ مغرب کے سانچے کے تحت چلتے جائیں تو راوی سب خیر لکھے گا۔ اس میں آپ جو مرضی کھا جائیں یا نگل جائیں لیکن جیسے ہی کوئی کام مغربی سانچے سے ہٹ کر ہوگا، وہ ملک کے لیے کڑوی گولی قرار پائے گا۔ اس سے ملکی معیشت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اور اس پر آہ و بکا شروع ہو جائے گی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اٹامک انرجی کمیشن نے س خبر پر رد عمل دیا اور اصل صورت حال سامنے رکھی۔ لیکن معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کا ذکر ان سطور میں کر دیا گیا ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آزادی رائے بہت ضروری ہے لیکن یاد رہے کہ آزادی رائے آئین کے جس آرٹیکل (19) میں فراہم کی گئی ہے اسی میں اس کے بارے میں کچھ رہنما اصول بھی وضع کیے گئے ہیں۔ انہیں نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔