عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ سائفر بیانیہ صرف ایک ڈرامہ تھا اور عمران خان نے حقائق چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس بیان کو لے کر شور مچا ہے لیکن میرے پیش نظر سوال یہ ہے کہ اعظم خان کے اس بیان میں خبر، کیا ہے؟ جنون اور سادہ لوحی کا معاملہ الگ ہے ورنہ یہ حقیقت تو اب اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے کہ پینتیس پنکچرز سے لے کر سائفر تک اور دیانت داری سے لے کر عزیمت تک، یہ سب ایک ڈرامہ تھا۔ پوسٹ ٹروتھ کا ایک تاج محل۔
کلٹ کا معاملہ الگ ہوتا ہے، اسے چمکتا دن بھی ساون کی بادوباراں معلوم ہوتا ہے۔ کلٹ کی یہ بنیادی نشانی ہے کہ وہ عقل سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ وہ دلیل کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کی لگام عقیدت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ سبزیوں کے ریٹ پڑھتے ہوئے بھی شدت جذبات سے گلوگیر ہو جاتا ہے۔ وہ قیادت کے نامہ اعمال کو حکمت کی کسوٹی پر نہیں پرکھتا، وہ حکمت اور دانائی کو قیادت کے قدموں میں رکھ کر اس کا بھائو لگاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ سارا بندو بست ایک کلٹ تھا۔ جس کے تمام مظاہر اب پیازکی تہوں کی طرح چھل کر سامنے رکھے ہیں اور انہیں مزید کسی تعارف کی حاجت نہیں۔
پینتیس پنکچرز کا وہ طوفان اٹھا کہ الامان۔ آخر میں نازو ادا سے کہہ دیا کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ سالوں جس بیانیے کو تلوار بنا کر لہراتے رہے، ایک وقت آیا مسکرا کر کہہ دیا یہ تو تحریک انصاف کے سیمسن سائمن شرف نے مجھے بتایا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ سیمسن سائمن شرف صاحب بھلے آدمی ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو کہنے لگے میں نے یہ بات کہیں سے سنی تھی۔ سنٹرل ایگزیکٹو کی میٹنگ میں، میں نے یہ بات سب کو بتائی اور کہا کہ یہ بات کہی جا رہی ہے ہمیں اسے کنفرم کر لینا چاہیے۔ لیکن نعیم الحق نے وہیں یہ بات ٹویٹ کر دی اور کہا کہ کنفرم کرنے کی ضرورت نہیں، بس اب ایسا ہی ہے۔ اور عمران خان نے نعیم الحق کی تائید کر دی۔
میں آج بھی سیمسن سائمن شرف صاحب کی یہ بات یاد کرکے حیران ہوتا ہوں کہ کیا ایک سیاسی جماعت اپنا بیانیہ یوں اس غیر سنجیدگی سے بناتی ہے؟ جب جہاں جس بات سے مفاد پورا ہوا نظر آیا اسے پرچم بنا لیا اور جب پھنس گئے تو مزے سے کہہ دیا مجھے تو سائمن شرف نے بتایا تھا۔ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ پورے ملک کو سالوں ہیجان، نفرت اور افراتفری کا شکار کرکے مزے سے کندھے اچکا لیے کہ یہ تو بس ایک سنی سنائی بات تھی۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا ان کا پورا دور حکومت اسی غیر سنجیدہ اور کھلنڈرے رویے کی نذر ہوگیا۔ یہاں تک کہ ایران گئے تو تسلیم کر لیا کہ پاکستان پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کراتا رہا لیکن اب میں، آ گیا ہوں اب ایسا نہیں ہوگا۔ یعنی میں، کے آزار سے ملک پر فرد جرم عائد ہوتی ہے تو ہوتی رہے، بس میں، کو سرخرو ہونا چاہیے۔ میں، سے پہلے ملک میں کچھ ٹھیک نہ تھا، میں، سے پہلے سب چور تھے، میں، سے پہلے سب بے ایمان اور اچکے تھے، میں، کے علاوہ سب چور ہیں، میں، کے سوا سب لوٹ مار کرنے آتے ہیں۔ میں، کے علاوہ نہ کوئی دیانت دار ہے نہ محب وطن۔ ایک خطاب ہوتا تھا اور میں، کے ہزار مضامین دہرائے جاتے تھے۔
سائفر، اس غلطی ہائے مضامین کا آخری باب تھا۔ یہ بھلا دیا گیا کہ ملک کا مفاد کیا ہے، یہ بھی فراموش کر دیا گیا کہ اس جھوٹے بیانیے کی ر یاست کو کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ میں، کی انا اور میں، کا مفاد ہی سب کچھ تھا۔ عدم اعتماد کو امریکی سازش بنا دیا گیا۔ میں، کو ٹیپو سلطان اور امام شامل بنا دیا گیا اور باقی سب غدار قرار پائے۔ یہ سیاسی حریفوں کو امان ملی نہ اداروں کو۔ میں، مجروح ہوئی تو میں، سب پر پل پڑی۔ وحشت کے اس کھیل کا نکتہ عروج نو مئی تھا۔
سائفر، کا سارا تماشہ میں، کی مائنڈ گیم تھا اور میں، کا دعوی تھا کہ میں، سے زیادہ اس مائنڈ گیم کا ماہر کوئی نہیں۔ اگر امریکہ نے سایفر بھیجا تھا تو امریکی اراکین کانگریس عمران کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں؟ بریڈلے شرمن اور زلمے خلیل زاد کیا روسی ایجنٹ ہیں کہ عمران کی محبت میں مجنوں ہوئے پھرتے ہیں۔ اسرائیل کیا امریکہ دشمن ہے کہ اسے بھی اچانک پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی آزادیاں یاد آ گئی ہیں؟ کیا اسرائیل بھی امریکی سائفر کے خلاف ڈٹ گیا ہے؟
امریکہ اگر عمران خان کے روس جانے اور روس سے سستے تیل کا معاملہ کرنے کی کوششوں پر ناراض تھا تو عمران کو نکال کر وہ جنہیں لے آیا انہوں نے اسی روس سے سستا تیل کیوں اور کیسے لے لیا؟ روس نے امریکی سائفر کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو سستا تیل کیسے دے دیا؟ اس طرح کے ڈھیروں سوال ہیں جن پر غور کیا جائے تو سائفر کا سارا بیانیہ ایک بچگانہ اور غیر منطقی اور غیر سنجیدہ تھا۔ یہ اپنے کلٹ کو تو مخاطب بنا سکتا تھا لیکن اس میں یہ اہلیت نہیں تھی کہ یہ کسی سنجیدہ بحث کا عنوان بن سکے۔
طرز حکومت سے لے کر دعوی عزیمت تک، دعوی پارسائی سے لے کر دشنام طرازی تک، اس سارے بندوبست میں ہیجان، نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ جس نے بھی اس کا نام سونامی رکھا تھا درست رکھا تھا۔ ایسی اصطلاحات قیادت کی افتاد طبع کی خبر دیتی ہیں۔ جس تکرار سے عمران خان نے سونامی سونامی کے رجز پڑھے وہ بھی ان مزاج اور رجحان کے عکاس تھے۔ 9مئی اس سونامی کی آخری انگڑائی تھی۔ اس کے بعد یہ شوریدہ سر لہریں اپنی ساری قیامت خیزی کے ساتھ سمٹ رہی ہیں۔
اس بدلتے ماحول میں جن جن کا، غیرت ایمان جاگ رہا، ہے، اس معاشرے کو ان کی کسی گواہی کی کوئی حاجت نہیں۔ سونامی اپنے اجزائے تراکیبی کے ساتھ اس سے بہت پہلے اس قوم پر عیاں ہو چکا ہے۔ بارہ مئی تک عمران کے نعرے مار کر گرفتاری والے اب عمران کے خلاف فرد جرم پڑھتے ہیں تو اپنی روسیاہی کا ابلاغ کرتے ہیں، معاشرے کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتے۔
عبرت کدہ صرف اتنا ہے کہ یہ وہ رجال کار تھے جن کے ساتھ عمران خان امریکہ سے لڑنے نکلے تھے اورقوم کو حقیقی آزادی دلانے نکلے تھے۔ کپتان سے لے کر اس کے گیارہویں کھلاڑی تک یہ سب پوسٹ ٹروتھ کے سورما تھے۔ یہ خودچلتے پھرتے سائفر تھے۔ کچھ عیاں ہو گئے کچھ ہو جائیں گے۔ اعظم خان جیسے کردار انکشافات کریں یا نہ کریں، سونامی اپنے نامہ اعمال کے ساتھ قوم کے سامنے رکھا ہے۔ الامان، الامان۔