الیکشن ایکٹ، جو بنیادی طور پر عوام کے حق رائے دہی کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیا گیا تھا، اپنے ہی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ابطال کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ قانون سازی کا یہ رجحان ہمیں برطانوی نو آبادیاتی دور کے قانونی بندو بست کی یاد دلاتا ہے، جب حکومت اور عوام کا تعلق آقا اور رعایا کا تھا اور اس میں عوام کی حیثیت شہریوں کی نہیں بلکہ محکوم کی تھی۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 7 کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت، ڈپٹی کمشنر، پولیٹیکل ایجنٹ، یا ضلعی انتظامیہ کے سربراہ کو الیکشن انتظامات کے لیے اگر ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کسی کی بھی گاڑی کو طاقت سے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور اس کے لیے پولیس کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
یعنی اوپر سے ایک حکم آئے گا کہ اتنی گاڑیاں درکار ہیں، اس کے بعد کوئی بھی اہلکار، انتظامیہ کا افسر ہو یا کسی تھانے کا کوئی اے ایس آئی، جسے بھی یہ اختیار دے دیا گیا ہو، دفتر سے باہر تشریف لائے گا، سڑک پر آئے گا اور جس کی گاڑی مرضی قبضے میں لے لے گا۔
الیکشن ایکٹ نے اس "مال غنیمت" میں صرف ایک طبقے کو امان دی ہے۔ سیکشن 7 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت وہ گاڑیاں قبضے میں نہیں لی جا سکیں گی جو انتخابی امیدوار یا اس کے انتخابی ایجنٹ کے کسی بھی سطح کے استعمال میں ہوں گی۔ یعنی سیاسی اشرافیہ کے اس انتخابی عمل میں صرف اسی سیاسی اشرافیہ کو امان ہے، اس کے سوا کسی کو نہیں۔
اس قانون کی سکیم قابل غور ہے۔ اس میں گاڑی کے کسی مالک کو 12 یا 24گھنٹے کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اختیار ہے کہ جب جہاں اور جیسے چاہو کسی کی گاڑی قبضے میں لے لو۔ اس کا عملی نتیجہ ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ کیسا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے مجاز کوئی صاحب سڑک پر تشریف لاتے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ روک لی جاتی ہے، سواریاں بے یارو مددگار سڑک پر ہی اتار دی جاتی ہیں اور گاڑیاں قبضے میں لے لی جاتی ہیں۔ یا گاڑی تو فوری قبضے میں نہیں لی جاتی لیکن ڈرائیور سے کاغذات لے لیے جاتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں یہ جبر ہے اور اس جبر کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ کوئی متاثرہ شخص آگے سے بات کرے تو ذیلی دفعہ 3 کے تحت طاقت کا استعمال جائز ہے اور طاقت کے اس استعمال میں پولیس فورس کا استعمال بھی شامل ہے۔
قانون میں"شامل ہے" کا لفظ بھی بڑا دلچسپ ہے May use such force، including police force اس کا کیا مطلب ہے؟ پولیس فورس کے علاوہ کون سی طاقت استعمال کی جا سکتی ہے؟ کیا نجی گارڈز وغیرہ کی مدد سے بھی عوام کو بتایا جا سکتا ہے کہ نو آبادیاتی قوانین کی باقیات کتنی سنگین اور تکلیف دہ ہیں؟
ذیلی دفعہ 4 کے مطابق جو افسر گاڑی قبضے میں لے رہا ہے، وہی طے کرے گا کہ جتنے دنوں کے لیے گاڑی قبضے میں لی جا رہی ہے، اس کا کرایہ کیا ہوگا۔ اگر چہ وہاں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ اس کرائے کا تعین مارکیٹ کے مطابق ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر تعین مارکیٹ کے مطابق ہوگا تو فیصلہ متعلقہ افسر کیوں کرے گا؟
یہ ساری سکیم ہی جابرانہ ہے۔ " قبضے میں لینے" کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ فیصلہ سازوں کا ذہنی رجحان کیا ہے۔ یہاں قبضے میں لینے کی بجائے کرائے پر لینے کے الفاظ بھی شامل ہو سکتے تھے لیکن اس سے شاید وہ اتھارٹی قائم نہ ہو پاتی جو رعایا پر قائم کرنا نوآبادیاتی قانون اور اس کی باقیات کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کو اگر الیکشن کے لیے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہو تو اس کے لیے کوئی مہذب طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ قبضے میں لینا، طاقت کا استعمال اور پولیس فورس کے استعمال جیسے اہتمام کی کیا ضرورت ہے؟
بادی النظر میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مارکیٹ ریٹ ادا نہیں کیا جاتا۔ اگر گاڑیوں کی ادائیگی مارکیٹ ریٹ کی بنیاد پر کی جائے تو کیا وجہ ہے کہ انہیں گاڑیاں نہ ملیں اور انہیں طاقت کا استعمال کرنا پڑے؟ یہاں پر بے شک ادائیگی کے تنازعے کی صورت میں ایک متفقہ آربٹریٹر کی بات بھی قانون میں رکھی گئی ہے لیکن یاد رہے کہ اس کا تقرر بھی صوبائی حکومت ہی کرے گی۔ اب ٹرانسپورٹر اپنا کاروبار کرے گا یا صوبائی حکومت کے خلاف پیسوں کے حصول کی چارہ جوئی کرتا پھرے گا؟ جو ٹرانسپورٹر اس گستاخی کا مرتکب ہوگا کیا اسے ضلعی انتظامیہ عبرت کا نشان نہیں بنا دے گی؟
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں ٹرانسپورٹ نظر ہی نہیں آتی کہ کہیں قبضے میں نہ لے لی جائے۔ اس سے پریشانی کس کو ہوتی ہے؟ عوام کو۔
انتخابات کے دنوں میں، امکان موجود ہے کہ، گاڑیوں کے کرائے بھی بڑھا دیے جاتے ہوں لیکن اس کا حل طاقت کے استعمال سے گاڑیاں قبضے میں لینا نہیں بلکہ کوئی باوقار اور قابل عمل راستہ نکالنا ہے، جس کی بنیاد جبر اور پولیس کے خوف پر نہ ہو بلکہ باہمی رضامندی پر ہو۔ ویسے بھی حکومت اگر معاشرے کو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول پر ہانکتی ہے تو اس اصول کا اطلاق خود اس پر کیوں نہ ہو؟
بظاہر یہ معمولی سی بات ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک پورا طرز فکر ہے جو عام آدمی کو شہری نہیں سمجھتا، رعایا سمجھتا ہے۔ آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق میں ایک حق پراپرٹی سے متعلق ہے۔ آرٹیکل 23 میں اس باب میں تین حق دیے گئے ہیں:
ہر شخص کو پراپرٹی حاصل کرنے کا حق ہے۔
ہر شخص کو پراپرٹی اپنے پاس رکھنے کا حق ہے۔
ہر شخص کو پراپرٹی " ڈسپوز" کرنے کا حق ہے۔ چاہے بیچ دے یا کسی کو دے دے۔
یعنی آئین کے مطابق پراپرٹی کا حق (acquire، hold، dispose) کے تین اصولوں پر کھڑا ہے۔ الیکشن ایکٹ کی کی دفعہ 17 اس میں سے (hold) کے حق کو معطل کر دیتی ہے اور اس آئین شکنی میں انتظامیہ کو پولیس کی طاقت استعمال کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔ جب پولیس کی طاقت کی مدد سے سڑک پر چلتی گاڑی کو قبضے میں لیا جاتا ہے تو کیا یہ گاڑی کرائے پر حاصل کی جاتی ہے یا چھینی جاتی ہے؟ یہ تو جبر کہلائے گا اور یہ باقاعدہ ایک جرم ہے۔ آئین کے آرٹیکل 8 میں لکھا ہے کہ وہ تمام قوانین جو باب دوم میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہوں گے، اس تصادم کی حد تک کالعدم تصور ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 7 جو آئین کے آرٹیکل 23 سے متصادم ہے، کالعدم تصور نہیں ہونی چاہیے؟ اراکین پارلیمان سے پوچھا نہیں جانا چاہیے کہ آپ نے آئین سے متصادم قانون کیوں بنایا؟ کیا الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اس قانون کی قباحت کو سامنے لائے؟ اور کیا ذرائع ابلاغ کا کام صرف سیاسی اشرافیہ کے اقوال و افعال پر رواں تبصرہ کرنا ہے یا انہیں عوامی مسائل پر اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر بھی بات کرنی چاہیے؟