بھلے وقت تھے جب ابولکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اب تو سیاست کی آنکھ سے حیا بھی اٹھ چکی۔ سلسلہ علم و فضل میں نسبت کا کوئی شرف باقی نہیں رہا، بالشت بھر لوگوں کو مسند ارشاد میراث میں آئی ہے اور بشارتوں کی زمین پر گویائی کا عذاب اتر آیا ہے۔ روز اہل سیاست محفل آراء ہوتے ہیں، روز اخلاقی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ ایک زوال مسلسل ہے جس نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے۔ پورا سماج زبان درازی کے آزار سے گھائل ہوا پڑا ہے۔ جس سماج میں کبھی شعلہ بیاں خطیب ہونا ایک خوبی ہوتا تھا، وہی سماج آج اہل سیاست کے ناتراشیدہ لہجے کے آزار سے سہما بیٹھاہے۔
معلوم نہیں کس نے کہا تھا، ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ آج ہر رہنما کے حصے کے بے وقوفوں نے اس سماج کو سینگوں پر لے رکھا ہے۔ پولرائزیشن اتنی زیادہ ہو گئی کہ خوف آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے کارکنان ہوں یا ٹاک شوز میں بیٹھے رہنما، سب پر ایک ہیجان طاری ہے۔ زبانیں آگ اگل رہی ہیں اور آنکھوں میں نفرتوں کے الائو ہیں۔ کوئل اور مرغان سحر تو قصہ ماضی ہوئے اب تو کہیں سے کوئی معقول آواز بھی کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ جو زیادہ بد زبانی کر سکتا ہے معرکہ اب اسی کے نام رہتا ہے اور سیاسی جماعتوں میں وہی معتبر ہے جس کی زبان کے قہرسے کسی کو امان نہ ہو۔ جو اپنی اور دوسروں کی عزت پامال کرنے میں جتنا ہنر رکھتا ہے اپنی اپنی صف میں وہ اسی درجے کا سورما ہے۔ یہ صرف زیب داستاں ہے کہ آج کس کی آتش زبانی کس کے دامن سے لپٹی اور کس کی زبان درازی نے کس کی عزت کا تماشا بنا دیا، حقیقت یہ ہے کہ اب یہاں کسی کی عزت نفس محفوظ نہیں، اب یہاں سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔
سیاست میں پاپولزم ایک ناگزیر برائی کے طور پر گوارا کیا جا سکتا ہے۔ حریف پر ایسے فقرے کسے جاتے ہیں کہ عوامی سطح پر بھی وابستگان لطف اندوز ہوں۔ اس سے لطافت اور ظرافت بھی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن انحطاط کے عمومی ماحول میں یہ رویے عذاب جاں بن جاتے ہیں۔ ہم کھلی آنکھوں سے اس عذاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پاپولزم بھٹو صاحب نے بھی اختیار کیا اور ان کے حریوں نے بھی۔ ہر دو اطراف سے گاہے حد سے تجاوز بھی کیا گیالیکن عمومی سیاسی ماحول میں شدید تر تلخی کے باووجود وضع داری اور احترام باہمی کسی نہ کسی درجے میں موجود رہے۔ دھیرے دھیرے زوال ہمہ گیر ہوتا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ برجستگی کے نام پر غیر اخلاقی تبصرے فرمائے جاتے ہیں اور وہ بھی سر مجلس۔ جلسہ عام میں بھی اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی۔
بد تمیزی کے اکا دکا مظاہر پہلے بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن تبدیلی کے تازہ موسموں نے یوں سمجھئے کہ دوسروں کی تذلیل اور تضحیک کو باقاعدہ ایک فن کا درجہ دے دیا۔ ہر جماعت میں آتشیں لہجے کے کچھ لوگ ہوتے ہیں لیکن تحریک انصاف کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں ہر ایک جنگجو ہے اور زبان بکف۔ حکومت میں آ کر بھی ان کے رویوں کا آتش فشاں تھمنے میں نہیں آ رہا۔ رد عمل میں اور فرسٹریشن میں اب صبح شام مطلع پر مقطع کہا جا رہا ہے۔ یہ زبان درازیاں اگر سیاست تک محدود رہتیں تو زوال مسلسل کے ان موسموں میں یہ سوچ کر گوارا کر لی جاتیں کہ بروں کی موت نے چھوٹوں کو بڑا کر دیا ہے لیکن المیہ یہ ہوا کہ ہیجان، نفرت، اور غیض و غضب میں اب جو دھول اڑ رہی ہے اس کا نشانہ خواتین ہیں۔
یہ رویہ اس سماج میں اجنبی نہیں۔ پدر سری معاشرے کے بہت سے فکری مسائل ہیں۔ اس کا اپنا فرسودہ احساس تفاخر، برہمنی روایات اور مذہب کے باب میں نقص فہم، سب کا نشانہ عورت ہے۔ نہ روایتی مردانہ معاشرہ عورت کو انسانی وجود تسلیم کرنے کو تیار ہے، نہ برہمنی روایات اور نہ ہی دین کے باب میں ہمارا نقص فہم۔ تیسرے نکتے پر جسے حیرت ہو وہ فقہی لٹریچر کا مطالعہ کر لے۔ چنانچہ وہ گلی کا کوئی نا تراشیدہ نیم خواندہ انسان ہو، کوئی ان پڑھ ہو، طالب علم ہو، وہ کوئی بھی ہو جب جھگڑتا ہے تو ماں، بہن اور بیٹی کی گالی دیتا ہے۔ سماجی مرتبے کے لحاظ سے گالی اور بد زبانی کے درجے بدلتے رہتے ہیں لیکن عورت کے بارے جو نفسیاتی گرہ ہے وہ ختم نہیں ہوتی۔ چنانچہ مولانا غفور حیدری بھرے جلسے میں حکومت کی نو ماہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں تو نو ماہ پر تکرار اور اصرار کرتے ہوئے حکومت کو ذومعنی انداز سے مسکراتے ہوئے نامردی کا طعنہ دیتے ہیں اور حافظ حسین احمد ایک بیٹی کو لاجواب کرنے کے لیے اخلاقیات کے معیار سے فروتر گفتگو ایک چینل پر بیٹھ کر فرماتے ہیں اور ذرا بد مزہ نہیں ہوتے۔ ایک نیم خواندہ سے انسان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی کی عمر کی خاتون ساتھ بیٹھی ہو تو زبان و بیاں کے آداب کیا ہو جاتے ہیں لیکن حافظ صاحب اس سے بے نیاز تھے۔ یہ بے نیازی لمحوں میں وجود میں نہیں آتی۔ اس کی اپنی فکری وجوہات ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کے رویوں کا رد عمل اپنی جگہ ایک حقیقت سہی لیکن رد عمل کے اشتعال میں آدمی کی افتاد طبع تبدیل نہیں ہوتی، صرف بے نقاب ہوتی ہے۔ اصل میں یہ ایک گرہ جو عورت کے بارے میں ہمارے ہاں ہر سطح پر موجود ہے اور اہل مذہب کے ہاں یہ گرہ شدید تر ہے۔
ابھی تو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ابھی آزادی مارچ چلا نہیں اور زبانوں کا آتش فشاں خواتین کے دامن سے لپٹ گیا ہے۔ دل خوف سے بوجھل ہے آگے چل کر کیا ہو گا؟ کیا کسی کی عزت محفوظ رہ پائے گی یا لہجوں کے آتش فشاں سے سب کے دستار اور دوپٹے جلا دیے جائیں گے؟یہ کیسی سیاست ہے؟ ابلیس بھی کہتا ہو گا " باقی نہیں اب میری ضرورت تہہہ افلاک"۔ میثاق معیشت کی تو فیق نہیں تو کم سے کم سب مل کر ایک " میثاق اخلاقیات" پر تو اتفاق کر لیجیے۔ افتخار عارف یاد آگئے:
دل روئے اور گریے کی توفیق نہ ہو
ایسا وقت بھی عارف صاحب آتا ہے