جو بیانیہ شیخ مجیب نے دیا، جسے ہمیشہ بھارت کی سرپرستی حاصل رہی اور جسے اب حسینہ واجد لے کر چل رہی ہیں یہ بیانیہ جھوٹ اور نفرت کا امتزاج ہے۔ حقیقت مگر اس بیانیے سے یکسر مختلف ہے۔
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر تنقید آج کل فیشن سا بن چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے بہت پہلے مکتی باہنی کے گوریلے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کر چکے تھے۔ گاؤں کے گاؤں قتل کیے گئے اور عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔ سیاسی مسائل یقینا موجود تھے لیکن ایک تو ان کی بنیاد پر ملک دشمنی اور قتل عام کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ دوسرا ان مسائل کا ذمہ دار کوئی ایک فریق نہ تھا۔ یہ قتل عام اور درندگی اتنی بڑھ گئی کہ آپریشن کرنا پڑا۔ ملامتی سوچ سے نکل کر دیکھا جائے تو حقائق بہت واضح ہیں۔
معامہ البتہ یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں کے قتل عام اور عصمت دری کی خبریں پاکستان نے حکمت عملی کے تحت چھپا لیں۔ اس کی ایک حکمت تھی۔ یہ الگ بات کہ ہم آج تک اس ذمہ داری کی قیمت دیتے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ان دنوں باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری کرکے میڈیا کو منع کر دیا کہ مغربی پاکستان میں ایسی کوئی خبر شائع نہ کی جائے۔ وزارت اطلاعات کا خیال تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی خبریں مغربی پاکستان میں شائع ہونے لگیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ رد عمل میں ان بنگالیوں پر کوئی ظلم ہو جو مغربی پاکستان میں موجود تھے۔ جو بنگالی اس وقت مغربی پاکستان میں تھے ریاست ان کو اپنی ذمہ داری سمجھ رہی تھی اور اسے ڈر تھا کہ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کی خبریں یہاں پہنچ گئیں تو رد عمل میں ان بنگالی شہریوں پر ظلم نہ ہو۔ ریاست کے سر پر اگر خون سوار ہوتا جیسے شیخ مجیب اور حسینہ واجد کا دعوی ہے تو مغربی پاکستان سے کوئی بنگالی سلامت نہ جاتا یا کم از کم ان کے ساتھ بھی وہی ہوتا جو مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کے ساتھ کیا تھا۔
چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی مکتی باہنی کے جتھوں کے ساتھ مل کر غیر بنگالیوں کو ذبح کرتے رہے لیکن یہاں ایک خبر بھی شائع نہ ہو سکی۔ مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی کاٹ کر پھینک دیے گئے لیکن مغربی پاکستان میں کسی ایک بنگالی کو بھی کسی نے ہاتھ نہ لگایا۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ عوامی لیگ یک طرفہ پروپیگنڈا کرتی رہی۔ ہمارا ذمہ دارانہ رویہ ہماری کمزوری بنا دیا گیا اور ان کی شرپسندی ان کی طاقت بن گئی۔
پاکستان نے ایک قرطاس ابیض ضرور شائع کیا تا کہ دنیا کو معلوم ہو کہ حقائق کیا تھے لیکن وہ بھی بہت تاخیر سے کیا گیا۔ اس وقت تک عوامی لیگ اور بھارت کا جارحانہ پروپیگنڈا بڑی حد تک اپنا کام کر چکا تھا۔ اس قرطاس ابیض کو دنیا نے ایک جوابی کارروائی سمجھتے ہوئے اتنی اہمیت نہ دی۔ یہ پہلے شائع کر دیا گیا ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ لیکن ظاہر ہے یہ تاخیر نیک نیتی سے کی گئی تھی اور اس کا مقصد مغربی پاکستان میں مقیم بنگالیوں کو ممکنہ رد عمل سے بچانا تھا۔ تاہم اس کے جو منطقی نتائج تھے وہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ قتل عام کی جھوٹی کہانیاں پھیلائی گئیں۔ اجتماعی عصمت دری کے جھوٹے الزام عائد کیے گئے۔ اولین مرحلے میں عوامی لیگ اور بھارت کا یہ پروپیگنڈا اتنا شدید تھا کہ آج تک اس کے اثرات زائل نہیں ہو سکے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہمارے ہاں اس حادثے کو فراموش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ دوسری جانب بھارت اور بنگلہ دیش نے جی بھر کر پروپیگنڈا کیا۔ انہوں نے مکتی باہنی کے قاتل جتھوں کو آزادی کا سپاہی قرار دے کر ان کی عزت افزائی کی لیکن ہم نے البدر اور الشمس کے رضاکاروں کو ایک گناہ کی طرح بھلا دیا۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش پینتیس سال کی جدوجہد کے بعد یہاں سے لے گیا اور اعزاز کے ساتھ دفنایا جب کہ ہم بنگلہ دیش میں دفن اس میجر اکرم شہید کو بھی بھول گئے جسے ہم نے نشان حیدر دیا تھا۔ ایک طرف خاموشی ہو اور دوسری جانب بھر پور ریاستی پروپیگنڈا ہو تو اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا اور بنگلہ دیش کو کبھی اپنا دشمن تصور نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان آج تک بنگلہ دیش کو دشمن نہیں سمجھتا۔ ایک عجیب سی محبت ہے جو آج بھی پاکستانیوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ دشمن بھارت ہی تھا اور بھارت ہی ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کے لیے عموی خیر خواہی کا رویہ اختیار کیا گیا۔ یہاں تک کہ جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بھی بنگلہ دیش کو دے دی گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے سر پر خون سوار رہا۔ واضح معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے البدر کے بزرگوں پر بغیر کسی ثبوت مقدمات چلا کر انہیں پھانسیاں دی گئیں۔
خرابی اقتدار کے ایوانوں میں تھی، محاذ پر ہمارا سپاہی پورے بانکپن سے لڑا۔ لیکن کسی نے اس سپاہی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ کاش کوئی لکھ ڈالے کہ ہمارا سپاہی کیسے لڑا۔ کتنی ہی کہانیاں ہیں مگر ہم گونگے ہو گئے۔ بھارت کے جنرل مانک شاہ نے ہمارے کیپٹن احسن ملک کے عزم اور بہادری کی کھل کر تعریف کی لیکن ہمارے سماج میں سے کسی کو یہ تو فیق نہ ہو سکی۔
ذرا مشرقی پاکستان کا نقشہ تو اٹھا کر دیکھیے۔ ہر طرف سے بھارت میں گھرا ہوا۔ پھر اپنی فوج کی نفری گن لیجیے۔ یہ بھی جان لیجیے کہ آپ اپنے سپاہی کو اسلحہ اور خوراک نہیں پہنچا پا رہے تھے۔ زخمیوں کو طبی سہولیات تک دینا ممکن نہیں تھا۔ ادویات نا پید ہو چکی تھیں۔ لیکن دشمن کے تمام راستے کھلے تھے۔ رسد و کمک کے ذرائع لا محدود تھے۔ آپ کے ایک سپاہی کے مقابلے میں دشمن کے پندرہ سپاہی تھے۔ غلط فیصلے اقتدار کی ہوس میں ایوانوں میں ہوئے، سپاہی سے کیا گلہ؟ کہیں تو انصاف کر لیجیے۔
دشمن کا یہ بیانیہ ہمارے داخلی تضادات کی وجہ سے مضبوط ہوا۔ یہاں کشمکش اقتدار میں بہت کچھ ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سب نے قومی سیاسی نفسیات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں ایک فالٹ لائن سی پیدا ہوگئی جسے کسی نے بھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہاں ایک گرہ سی پڑ گئی۔ کسی نے اس گرہ کو کھولنا ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گرہ نے ہمارا بہت نقصان کیا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے اپنے وفا شعاروں کو بھلا دیا لیکن حسینہ واجد کا کلیجہ ڈھنڈا نہیں ہوا۔ ہمیں اپنی پالیسی اور بیانیے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ (ختم شد)