تو کیا حکومت نے کشمیر کا سودا کر لیا؟کچھ ساکنان ِ کوچہِ دلدار اپنے روایتی اہتمام کے ساتھ اس کا جواب اثبات میں دے رہے ہیں اور کچھ اپنی دائمی سادہ لوحی میں اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بہت سارے معاملات میں حکومت کا ناقد ہونے کے باوجود میرے نزدیک البتہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔
دشمن باہر سے حملہ آور ہے اور کچھ لوگ اندر سے۔ یہ جو اندر سے حملہ آور ہیں یہ دشمن سے کم خطرناک نہیں۔ یہ منصوبہ بندی سے وار کرتے ہیں، افواہیں پھیلاتے ہیں، مایوسی کو فروغ دیتے ہیں، ریاست اور ریاستی اداروں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور قوم کو اندر سے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالت امن ہو یا جنگ، یہ ہمیشہ اپنے محاذ پر پائے جاتے ہیں۔ ان کی اصلیت اور طریق واردات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
ملیحہ لودھی ہی کو لے لیجیے۔ اچانک ان کے خلاف ایک مہم چل پڑی۔ اتفاق دیکھیے کہ وہ حضرات جو عشروں سے اپنی روشن خیالی کا سارا زور لگا کر یہ کہتے پھرتے تھے کہ مذہبی معاملات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ ان کا مذہب تو انسانیت ہے وہ اچانک ہمیں باور کرانے لگ گئے کہ دیکھو دیکھو یہ ملیحہ لودھی تو ہندوئوں کی رشتہ دار نکلی، یہ ملک کی خیر خواہ کیسے ہو سکتی ہے، یہ تو کشمیر بیچ کر آئے گی۔ سادہ لوح تو وطن عزیز میں تھوک کے حساب سے ملتے ہیں لیکن معلوم تو کیجیے یہ ملیحہ لودھی کی ہندو ئوں سے رشتہ داری کو مہم بنانے میں کون کون شامل ہے۔ روشن خیالی کے یخ بستہ آنگن میں یہ اچانک مذہب دوستی کا الائو کیسے بھڑک اٹھا؟ذرا سوچیے تو، ملیحہ لودھی کی یہ رشتہ داری انہیں اب ہی کیوں یاد آئی جب وہ پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے جا رہی تھیں۔ کیا یہ ولیمہ کل ہوا ہے جو یہ اتنا بھائو کھائے بیٹھے ہیں؟ حکومت بھی نا معتبر، اس کے ادارے بھی تمسخر کے نشانے پر اور اس کے منجھے ہوئے سفارت کاروں کی بھی کردار کشی، یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں اور اصل واردات کیا ہے؟ ایک سال پہلے یہی ملیحہ لودھی ہی تو تھیں جب اقوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر غیر معمولی رپورٹ پیش کی تھی اور روانڈا کی طرز پر ایک انکوائری کمیشن بنانے کی سفارش کی تھی۔ ہمارے ہاں یہ رپورٹ زیر بحث نہ آ سکی یہ الگ بات ہے ورنہ بوڑھے اور تجربہ کار سفارتکاروں کا توکہنا ہے کہ یہ رپورٹ گذشتہ پچاس سالوں میں کشمیر پر ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب پاکستان کو ایک تجربہ کار سفارت کار سے محروم کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی؟
حکومت کی غلطیاں بہت ہوں گی لیکن حکومت کشمیر کا سودا کیوں کرے گی؟ اتنی بے اعتباری کیوں؟ غالب امکان یہی ہے کہ ہماری کمزور معیشت اور عرب دنیا سے بھارت کے غیر معمولی معاشی روابط کو دیکھتے ہوئے مودی نے یہ ایڈونچر کر دیا ہے۔ اب حکومت نے اس سے نبٹنا ہے۔ وہ اپنے انداز سے کوششیں کر رہی ہے۔ ان میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن حکومت پر کشمیر فروشی کا الزام عائد کر کے یہ لوگ کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ پاکستان کی یا دشمن کی؟ہمیں یکسوئی اور وحدت فکر کی ضرورت ہے۔ سازشی تھیوری ہی کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہیں تو پھر ہر دوسرا بندہ غدار ہو گا۔ اس بیمار سوچ کے ساتھ ہم نے دشمن کا مقابلہ تو کیا کرنا ہمیں شاید دشمن کی حاجت ہی نہ رہے۔
سلامتی کونسل میں معاملہ گیا توکہا گیا یہ ہنگامی اجلاس نہیں مشاورتی اجلاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گیا؟ سلامتی کونسل میں بات تو پہنچی، کیا عجب ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں ناکامی ہو جائے اور ہمیں جنرل اسمبلی جانا پڑے۔ ویٹو بھی ہو سکتا ہے۔ مسعود اظہر کے لیے ویٹو ہوتا آیا ہے تو یہاں دنیا کے بھارت سے کھربوں کے مفادات بھی کسی ایک سے ویٹو کروا سکتے ہیں۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ قوموں کی جدوجہد میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ ہمت اور مضبوط اعصاب کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، بیمار ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ مل کر قدم قدم پر سینہ کوبی اور اپنے ہی اداروں کو سینگوں پر لیے رکھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے اور اس میں ہر قدم پر کامیابی نہیں ملے گی۔
ایک اعتراض یہ ہوا کہ سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ہمارے کہنے پر نہیں چین کے کہنے پر بلایا گیا۔ چلیں چین کے کہنے پر بلایا گیا پھر کیا فرق پڑا۔ دوست ہوتے ہی کس لیے ہیں۔ دل چسپ بات ہے کہ یہ وہی معترضین تھے جو کل تک دہائی دے رہے تھے کہ چین تو پاکستان سے ناراض ہو چکااور عمران خان نے سی پیک کا سودا کر لیا۔ آج وقت پڑا تو معلوم ہوا یہ چین ہی ہے جو ساتھ کھڑا ہے۔
فوج کو طعنے دیے جا رہے ہیں۔ وہ لبرلزجو کل تک امن کی آشا پر اچھلتے تھے اچانک نسیم حجازی کے گھوڑے کی طرح ہنہنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی اس بے ہودگی کا حصہ کیوں بنے؟ کیا اس فوج نے کشمیر کے لیے اس سے قبل متعدد جنگیں نہیں لڑیں؟ جنگ کل لڑی جا سکتی ہے تو اب بھی لڑ لی جائے گی۔ اور میرا خیال ہے ایک جنگ لڑنا ہی پڑے گی۔ لیکن جو یہ جنگیں لڑتے آئے ہیں اور جنہوں نے یہ جنگ لڑنی ہے اور جو اس وقت بھی لائن آف کنٹرول پر جانیں قربان کر رہے ہیں انہی کو سینگوںپر لیے رکھنا کہاں کی معقولیت ہے؟
جنگ کی بات ہو تو انہیں تکلیف ہوتی ہے، امن کے وقفے کو ترجیح بنایا جائے تو یہ ایک بار پھر تکلیف سے چیخنا شروع کر دیتے ہیں، تلخی بڑھ رہی ہو تو یہ سفارت کاری کا لیکچر دیتے ہیں، سفارت کاری پر کام شروع ہو جائے تو یہ سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں کہ کبھی جنگ کی بجائے کبھی سفارت کاری سے بھی کامیابی ملی۔ ریاست اور ریاستی اداروں پر کیچڑ اچھالتے رہنا شاید ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہے۔ لیکن ایک عام آدمی کو یاد رکھنا چاہیے: اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے کم خطرناک نہیں ہوتا۔