Imran Khan Ki Kamyabi Kyun Zaroori Hai?
Asif Mehmood174
عمران ایک تجربہ ہے، اسے کامیاب ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے خود عمران خان کو اس کا کس حد تک احساس ہے؟عمران خان محض ایک حکمران نہیں کہ ناکام ہو گیا تو اس کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔ عمران خان سماجی شعور کی حدت کا نام بھی ہے۔ لوگوں نے محض ایک حکمران نہیں چنا، خلق خدا کی پلکوں سے جانے کتنے سپنے لپٹے تھے جن کی تعبیر کی آرزو لیے وہ عمران کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ آرزوئوں اور امنگوں کی آنچ پر سلگ کر لوگ عمران کے لیے نکلے کہ ایک بار، بس ایک بار، ہم بھی ووٹ ڈالنے جائیں گے۔ کتنے ہی لوگوں نے زندگی میں پہلی بار پولنگ سٹیشن کا رخ کیا۔ قطاروں میں کھڑے لوگ پسینے میں شرابور تھے لیکن ان کی آنکھوں میں چراغ جل رہے تھے۔ عمران کی نہیں، مجھے ان چراغوں کی فکر ہے۔ عمران خان کی ناکامی صرف دنیائے سیاست کا ایک واقعہ نہیں ہو گا۔ اس حادثے کے سماجی اثرات بہت خطرناک ہوں گے۔ عرصے بعد اس سماج نے ایک خواب دیکھا تھا۔ جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی شاید یہ آخری کوشش تھی جو ہماری نسل نے کی۔ یہ کوشش ناکام ہوئی تو لاتعلقی اور مایوسی پھیلے گی جو روایتی سیاسی قوتوں کی تقویت کا باعث تو بنے گی ہی یہ کسی اشتعال انگیز قسم کے رد عمل کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوتا ہے کہ سماج خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ جب خواب مر جاتا ہے تو معاشرہ جوہڑ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور تعفن دینے لگتا ہے۔ عمران خان کا معاملہ بڑا عجیب اور پیچیدہ ہے۔ ان سے محبت یا نفرت میں آدمی اپنا توازن کھو نہ چکا ہو تو ان کے بارے میں آخری قائم کرنا مشکل ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی افتاد طبع کی بعض خامیاں، وہ چاہیں تو، ان کی قوت بھی بن سکتی ہیں۔ نرگسیت کی حدوں کو چھوتی خود اعتمادی اور انسانی رشتوں اور تعلق کے باب میں سرد مہری کی حد تک بے نیازی سماجی رویے کے باب میں انتہائی نا پسندیدہ رویہ کہلائے گا لیکن ایک فدویانہ نفسیات رکھنے والے سماج میں جہاں کرپشن اور ظلم و جبر کی بنیادی وجہ ہی رشتہ داریاں، دوستی اور تعلق ہو، یہ خامیاں، خوبی بھی بن سکتی ہیں۔ توقعات کا پہاڑ کھڑا کرنے کی غلطی انہوں نے خود کی، اب ہر روز ان کا اپنا ہی ایک اقوال زریں ان کے دامن گیر ہو جاتا ہے کہ قبلہ پیچھے تو دیکھو، کل تو آپ یہ فرما رہے تھے۔ لیکن قول و فعل کے اس سارے تضاد کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا تقابل ابو بن ادھم یا عمر بن عبد العزیز سے نہیں نواز شریف اور آصف زرداری سے کیا جائے گا۔ روایتی سیاست کا یہی آزار ہے جو ایک بار پھر مسلط ہونے کو بیانیہ بکف ہو چکا ہے۔ تقابل کی اس میزان کا پلڑا بہر حال عمران کے حق میں ہے۔ اس نے یہاں مرغی انڈے اور چوزوں کا کاروبار نہیں کرنا۔ اس نے سرگودھا کی قیمتی زمین کے مربعے اپنے نام الاٹ نہیں کیے۔ اس کی سیاست موروثی نہیں۔ اس نے تحریک انصاف کواپنے بچوں کی غلامی پر بغلیں بجانے والا گروہ نہیں بنانا۔ اس نے رشتہ داروں کو نہیں نوازا۔ وہ جیسا بھی ہے، پیٹ کا جہنم لے کر نہیں ایک خواب لے کر اس سیاست میں وارد ہوا ہے۔ اس نے اہل صحافت کو نوازنے کے لیے پٹرول پمپوں کے ٹھیکے نہیں دیے۔ طنطنے سے رہتا ہے۔ اس سماج میں ایسا آدمی ہی تبدیلی کا بھاری پتھر اٹھا سکتا ہے۔ خدا کی عطا میں کوئی کمی نہیں۔ مقبول ہے۔ شخصیت میں ایک سحر ہے۔ جہاں جاتا ہے جان ِ محفل وہی ہوتا ہے، وہ بھلے ٹرمپ کا وائٹ ہائوس ہی کیوں نہ ہو۔ سفارتی سطح پر اس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ پورے قد اور پوری جرات کے ساتھ وہ کہیں بھی بات کر سکتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا عالمی سیاست کے اکابرین کے لیے ممکن ہے نہ بین االاقوامی میڈیا کے لیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب گھر درست نہیں ہوتا، بشخصیت کا سحر اور بیرون ملک یہ پزیرائی کافی نہیں۔ گھر کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ دو چیلنجز پر قابو پا لے تو وہ اس ملک کے لیے غیر معمولی خیر کا باعث ہو سکتا ہے۔ اول: اکانومی۔ دوم : پولیٹیکل اکانومی۔ عمران خان کی ٹیم کی اہلیت پر تو سوالات اٹھ ہی رہے ہیں، ان کے رویے بھی تکلیف دہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر وقت آتش فشاں بنے رہنا اور ہر وقت دوسروں کی تضحیک اور تذلیل کرتے رہنا، یہ ایسا رویہ نہیں جس کی تحسین کی جائے۔ عالم یہ ہے ان کے بعض وزراء کو سننا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے لہجے، ان کا طرز گفتگو، لاحول ولا قوۃ۔ خود وزیر اعظم ان وزراء کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ ایسے وزیر جس کے پاس ہوں اسے دشمنوں کی کیا حاجت۔ قوم کے سامنے موقف رکھنے کے لیے ہی کم از کم ایک دو نجیب اور نفیس لوگ تلاش کر لیں، ورنہ وہ وقت دور نہیں ان رویوں کا آزار آسیب بن کر آپ کا تعاقب کرے گا۔ مجھے ڈر ہے عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم بھی آخری تجزیے میں ان کے لیے اثاثہ نہیں بلکہ ایک بوجھ ثابت ہو گی۔ ایک وقت آئے گا سماج اس رویے کواگل دے گا۔ سماج کی کچھ تہذیب حالات کا جبر خود بھی کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کے جذباتی وابستگان کو بھی آج یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ بین الاقوامی سیاست میںا مریکہ کی کیا اہمیت ہے اور اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا کتنا ضروری ہیں۔ خواہشات اور حقائق کی دنیا کا فرق جوں جوں ان پر کھلتا جائے گا مزاج کی مزید تہذیب ہوتی جائے گی۔ امور ریاست میں قدم قدم پر ایسے مقامات آئیں گے جب خود عمران کو اور ان کے وابستگان کو معلوم ہو گا کہ امور خارجہ کی نزاکتیں کیا ہوتی ہیں۔ اس سفر میں عمران خان کو ہجوم عاشقاں کی نہیں، خیرخواہوں کی ضرورت ہے۔ خیر خواہی یہ نہیں کہ ان سے عقیدت کے غلو میں بندہ فیصل جاوید ہی بن جائے۔ خیر خواہی یہ ہے کہ ہر دم ان کا محاسبہ ہوتا رہے۔ عمران خان ایک تجربہ ہے، اسے ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ سوال مگر وہی ہے : خود عمران خان کو اس بات کا کتنا احساس ہے؟